• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کا ہم وطن ہونے کے ناتے میرا فرض بنتا ہے کہ میں آنے والے حالات سے آپ کو آگاہ کرتا رہوں۔ آپ کومشورے دیتا رہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بڑے سمجھدار ہیں۔ بہت سیانے ہیں۔ آپ حالات کے پیچ و خم کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کو مشوروں اور ہدایات کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میں کیا کروں؟ میں بہت بڑا پھنے خاں ہوں۔ خودکو تیس مار خان سمجھتا ہوں۔ اس لئے میں مشورے دینے سے باز نہیں آتا۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے میں مشورے دینے سے باز نہیں آتا۔ اب آپ کاغذ قلم اٹھائیں اور میرے مشورے نوٹ کرتے جائیں۔ لیکن سب سے پہلے میں ایک عدد مختصر تمہید آپ کے گوشگزار کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک میں اندرون خانہ بہت سی فلاحی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو آپ کو بے گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اب تبدیلی آچکی ہے۔ جب تک آپ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہیں کرتے تب تک آپ کو مجرم سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے ہم سب تب تک مجرم ہیں جب تک ہم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہیں کرتے۔ مثلاً میں نے جو جانگیہ پچھلے پانچ برس سے پہن رکھا ہے وہ جانگیہ اگر چوری کا نہیں ہے اور میرا اپنا ہے تو میرے پاس کیا ثبوت ہے کہ پانچ سال پرانا جانگیہ جس میں جوئیں رینگتی رہتی ہیں میرا اپنا جانگیہ ہے؟ ہے میرے پاس کوئی ثبوت ؟ مثلاً اس دکان کا اتا پتا جہاں سے میں نے جانگیہ خریدا تھا؟ جانگیہ خریدنے کی رسید؟ اگر رسید نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جانگیہ چوری کا ہے۔ میں دھرلیا جاسکتا ہوں!
ایک صاحب تھانے پہنچے۔ بیوی کا لاکٹ چوری ہوجانے کی رپورٹ لکھوانا چاہی۔ لاکٹ کی قیمت پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت تھی۔ رپورٹ لکھنے والے سپاہی نے پوچھا:کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ وہ لاکٹ تمہاری ملکیت تھا؟ وہ صاحب دوڑتے ہوئے گھر تک گئے۔ لاکٹ خریدنے کی رسید ڈھونڈ نکالی اور ہانپتے ہوئے واپس آئے۔ سپاہی کو رسید دکھائی الٹ پلٹ کر رسید دیکھنے کے بعد سپاہی نے پوچھا:انکم ٹیکس دیتے ہو؟ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس شخص نے کہا: غلطی سے تھانے پر آنے کے بجائے میں کہیں انکم ٹیکس آفس تو نہیں آگیا ہوں! سپاہی نے پوچھا:لاکٹ خریدنے کے لئے پانچ لاکھ روپے تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ وہ صاحب کچھ کچھ ناراض ہوئے۔ بولے: میں آپ کے پاس لاکٹ چوری ہونے کی رپورٹ لکھوانے آیا ہوں۔ اور آپ مجھ سے غیرضروری سوالات پوچھتے جا رہے ہیں! آپ میری رپورٹ لکھیں۔ سپاہی نے کہا:چوری کا مال اگر چوری ہوجائے تو اس کی رپورٹ کبھی نہیں کٹوائی جاتی۔
اس مثال سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ صرف رسید دکھا کر آپ کسی چیز پر اپنا حق جتا نہیں سکتے۔ آپ جس مکان میں رہتے ہوں وہ مکان تب تک آپ کا ہے جب تک بال کی کھال اتارنے والے آپ کے دروازے پر دستک نہیں دیتے۔ اگر ایک مرتبہ انہوں نے آپ کے گھر کے دروازے پر دستک دے دی تو پھر یقین جانیے کہ آپ زندگی بھر دستک کی آواز سنتے رہیں گے۔ دستک کی آواز سننے کے بعد آپ اور کوئی آواز سننے کے قابل نہیں رہیں گے۔ سڑک پار کرتے ہوئے آپ تیز رفتار بس کا ہارن نہیں سنیں گے۔ آپ بس کے نیچے آکر سڑک کے بیچوں بیچ تڑپ تڑپ کر جان دے دیں گے۔ آپ جب بھی رب تعالیٰ سے آفتوں سے پناہ میں رہنے کی دعا مانگیں تب گڑ گڑاکر دستک کی آواز کبھی نہ سننے کی دعا ضرور مانگا کریں۔ میں جو ملنے ملانے والوں کو نیم پاگل لگتا ہوں وہ اس لئے کہ میں نے ایک مرتبہ اپنے گھر کے دروازے پر دستک کی آواز سنی تھی۔ وہ آواز سننے کے بعد مجھے اور کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ دستک دینے والوں نے پوچھا تھا: کیا یہ مکان تمہارا ہے؟ میں نے عاجزی سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا:جی ہاں، یہ مکان میرا ہے۔ دستک دینے والوں میں تین چار آدمی شامل تھے۔ وہ مجھے قصائی لگ رہے تھے۔ میرا جواب سن کر انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پوچھا:کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس کہ یہ مکان تمہارا ہے۔ میں نے بڑی احتیاط سے دراز میں رکھے ہوئے مکان کی رجسٹری کے کاغذات دستک دینے والوں کو دکھائے۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور پھر پوچھا:کیا کرتے ہو؟ میں نے عاجزی سے جواب دیتے ہوئے کہا:جناب والا، میں پڑھاتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: ماسٹر ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: جی ہاں سر جی، میں ماسٹر ہوں۔ پوچھا:ماسٹر ہوتے ہوئے تم نے یہ مکان کیسے خریدا؟ پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟ میں نے عاجزی سے کہا:سر جی، روہڑی میں ہمارے پڑ دادا کی حویلی تھی۔ وہ ہم نے بیچ دی تھی۔
اسی پیسے سے ہم نے یہ مکان خریدا تھا۔ دستک دینے والوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دستک دینے والوں نے پوچھا: کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس؟ میں دراز سے آبائی ملکیت کے کاغذات نکال کر لے آیا۔ ان کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حویلی تمہارے پڑ دادا کی تھی۔ یہ حویلی تمہارے پڑ دادا نے بنوائی تھی یا کسی سے خریدی تھی؟ میں چکرا گیا۔ میں نے عاجزی سے کہا: میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ حویلی میرے پڑ دادا کی تھی۔
دستک دینے والوں نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: تمہارے پڑ دادا جب پیدا ہوئے تھے تو کیا یہ حویلی غیب سے اپنے ساتھ لے آئے تھے؟ میں ہکا بکا رہ گیا۔
دستک دینے والوں نے کہا: یہ ملک مجرموں کیلئے نہیں بنا تھا۔ اب ہر شخص کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ بے گناہ ہے۔ ورنہ اسے مجرم سمجھا جائے گا۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے تمہیں قانون کو قائل کرنا پڑے گا کہ تمہاری آبائی حویلی تمہارے پڑ دادانے جائز آمدنی سے خریدی تھی یا بنوائی تھی۔ ورنہ تمہیں اپنے اس مکان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
مجھے خاموش دیکھ کر دستک دینے والوں نے پوچھا: کیا سوچ رہے ہو؟
میں نے کہا:میں سوچ رہا ہوں کہ اگر آپ نے رشتوں کا ثبوت مانگا تو میں کیسے ثابت کروں گا کہ حویلی کے مالک میرے پڑ دادا تھے اور میں ان کا پڑ پوتا ہوں۔ ہمارا DNAنہیں ہوسکتا۔

.
تازہ ترین