• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی پوری پیپلز پارٹی ایک خاندان کی طرح ہوا کرتی تھی پھر مخالفین کے مطابق اس خاندان کو دولت کی نظر لگ گئی اور نظریہ دولت کی نذر ہو گیا۔ جب پیپلز پارٹی خاندان کی طرح تھی تو ان کے دکھ سکھ، خوشیاں، غم سب سانجھے تھے۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جہانگیر بدر کی وفات کے بعد جب سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ لاہور آئے تو لاہور ایئر پورٹ کے وی آئی پی لائونج میں میاں شہباز شریف سے محو گفتگو ہوئے۔ اسی گپ شپ میں سندھ کے ایک وزیر ناصر علی شاہ نے پنجابی بولنا شروع کر دی، میاں شہباز شریف اس روانی کے ساتھ پنجابی بولنے پر حیران ہوئے تو ان کی اس حیرت کو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید چوہدری نے دور کیا، انہوں نے بتایا کہ سید ناصر علی شاہ، اسلم گورداسپوری کے بھانجے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بدقسمتی ہے کہ کبھی وہ ملک کی سب سے مقبول ترین جماعت ہوا کرتی تھی، نو جماعتی اتحاد بھی پیپلز پارٹی سے ہار جاتا تھا، بعد میں پیپلز پارٹی کو جدوجہد کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہ پیپلز پارٹی ہی کے لوگ تھے جو کوڑے کھا گئے، قلعے کاٹ گئے، جیلیں برداشت کر گئے، بہت سے اپنے عزیزوں کی اموات برداشت کر گئے۔ پیپلز پارٹی معاشرے کے اکثریتی طبقوں کی جماعت تھی، یہی اس کا حسن تھا، اس میں وکیل بھی تھے، صحافی بھی۔ اس میں مزدور، کسان، شاعر، ادیب، جدوجہد کرنے والی خواتین اور جذباتی نوجوان سبھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھٹو صاحب یا بی بی کی سالگرہ ہوتی تھی تو لاہور میں میرے مرحوم دوست جہانگیر بدر صبح سے کیک کاٹنا شروع کرتے تھے، یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ لاہور کے مختلف محلوں اور چوراہوں میں سینکڑوں کیک کاٹے جاتے تھے۔
وقت گزرتا رہا، پیپلز پارٹی زندہ رہی، پیپلز پارٹی کو آمر بھی ختم نہ کر سکے۔ پیپلز پارٹی دلوں میں گھسی ہوئی تھی۔ دسمبر 2007ء میں بھٹو کی بیٹی شہید ہو گئی۔ بی بی کی شہادت کے بعد پارٹی آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آگئی پھر انہوں نے یہ ہاتھ ضیاء الحق کی روحانی اولاد کے ہاتھوں میں دے دیا۔ یہیں سے پیپلز پارٹی کی بدقسمتی کا سفر شروع ہوا، اس سفر کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کمزور ہوتی گئی۔ بقول شخصے پارٹی کے اندر بھی نظریات کی جگہ دولت آ گئی۔ دولت کو حضرت علی ؓ نے خاک قرار دیا ہے لہٰذا اس دولت نے پیپلز پارٹی کو خاک کر دیا۔ جب کوئی اپنا آپ دشمنوں کے قدموں میں رکھ دیتا ہے تو پھر یہی ہوتا ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا۔ بھٹو صاحب پنجاب فتح کر کے وزیر اعظم بنے تھے اور اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار بھی پورے نہیں ہیں۔ ضیاء الحق کی روحانی اولاد سے وابستگی نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے دلوں کو توڑ دیا جس کے لئے ان کے دلوں میں نفرت تھی وہ اسے محبت کیسے سمجھتے۔ پیپلز پارٹی جو کبھی طبقات کے مختلف پھولوں کا گلدستہ تھی، دولت کی آرزو میں پھول بکھر گئے، آپ دولت سے محل خرید سکتے ہیں، گاڑیاں خرید سکتے ہیں مگر دل نہیں خرید سکتے۔ وہ جو پیپلز پارٹی کیلئے خون دیتے تھے انہیں ’’دولت‘‘ نے گھروں میں بٹھا دیا۔
دو روز پہلے لاہور میں تھا، پتہ چلا کہ چوہدری شجاعت حسین کی بھانجی انتقال کر گئی ہیں، تعزیت کے لئے گیا تو وہاں چوہدری پرویز الٰہی سے کچھ سیاسی باتیں ہوئیں ان کا تذکرہ پھر سہی۔ چوہدری برادران کے گھر سے نکل کر میں اس شخص کی طرف چلا گیا جو بے نظیر بھٹو کو پہلی سیاسی تقریر کروانے لے گیا تھا۔ یہ ستر کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے، بھٹو صاحب جیل میں تھے، بھٹو کا ایک جیالا جہانگیر بدر رہا ہو کر آیا تھا، حافظ غلام محی الدین کے ہاں اچھرہ میں ایک کارنر میٹنگ تھی، بیگم نصرت بھٹو، کھگہ ہائوس گلبرگ میں تھیں، ان کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی تھیں۔ یہ وہ دن تھا جس روز بے نظیر بھٹو کی سیاسی تقریر کا آغاز ہونا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے مخدوم فیصل صالح حیات سے کہا کہ ’’بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز ہونا چاہئے‘‘ فیصل صالح حیات اسی روز بے نظیر بھٹو کو اچھرہ والی کارنر میٹنگ میں لے گئے جہاں ڈیڑھ دو سو کارکن جمع تھے۔ بے نظیر بھٹو پریشان تھیں کہ وہ لوگوں سے کیا کہیں پھر اردو زبان بھی ان کا مسئلہ تھا۔ اس مرحلے پر جھنگ کے سید زادے نے کہا کہ ’’آپ کے دل میں جو ہے وہ کارکنوں کے سامنے کہہ دیں، اردو کا مسئلہ ہے تو انگریزی میں کہہ دیں، بس شروع کر دیں‘‘۔
جی ہاں، دو روز پہلے میں فیصل صالح حیات کے گھر پر تھا میں نے ان سے پوچھا کہ یہ بات درست ہے کہ آپ کے پیپلز پارٹی کی طرف رجوع کرتے ہی جیالوں میں جان آ گئی ہے مگر آپ کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے حالات کا پتہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا درجہ حرارت بھی منفی کو چھو رہا ہے اور آپ پھر پیپلز پارٹی کی طرف، کیوں؟ شاہ جیونہ کا گدی نشین بولا ’’مجھے پتہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے حالات بہت پتلے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ مجھے صفر سے شروع کرنا پڑے گا، میرے لئے پی ٹی آئی میں جانا مسئلہ نہیں تھا، عمران خان میرا اسکول کے زمانے کا دوست ہے مگر پیپلز پارٹی میرا پیار ہے، میرا گھر ہے، میں نے اپنی جوانی اس پارٹی میں گزاری، قلعے کاٹے، میں اب آسان راستہ اختیار کر سکتا تھا مگر میں نے مشکل راستہ چنا ہے۔ ہاں، یہ میں بتا دیتا ہوں کہ میری ضیاء الحق کی روحانی اولاد سے مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ ٹھنڈے یخ پانی سے بھرا ہوا دریا ہے لیکن میں اسے عبور کر لوں گا‘‘۔
میں آپ کو فیصل صالح حیات کے بارے میں بتاتا چلوں کہ مخدوم فیصل صالح حیات ستر کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم این اے بن گئے تھے اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے بلکہ انہیں قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے بیرون ملک جاری تعلیم کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔ شاید وہ پیپلز پارٹی میں واحد شخص ہو جس نے سب سے زیادہ الیکشن لڑے ہوں۔ فیصل صالح حیات اور منظور وٹو میں بس اتنا سا فرق ہے کہ جیالے، منظور وٹو کو اپنا نہیں سمجھتے جبکہ فیصل صالح حیات کو بیگانہ نہیں سمجھتے۔ اگرچہ پنجاب میں پیپلز پارٹی بہت کمزور ہے مگر فیصل صالح حیات تیز رفتار آدمی ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں سے بیس پچیس ایم این اے کے مضبوط امیدوار بھی توڑ سکتا ہے، کئی ٹوٹے ہوئوں کو جوڑ سکتا ہے۔
لاہور میں ضیاء نقشبندی نے انور قدوائی مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کر رکھا تھا جہاں مرحوم کے صاحبزادے امان انور قدوائی اور حفیظ انور قدوائی بھی موجود تھے۔ اس ریفرنس میں مجیب الرحمٰن شامی، جمیل اطہر سمیت چوٹی کے صحافیوں نے اظہار خیال کیا۔ انور قدوائی صاحب زبردست آدمی تھے، سچے عاشقِ رسولؐ اور اہل بیتؓ سے محبت کرنے والے تھے۔ انہیں حفیظ اللہ نیازی، سجاد میر، اوریا مقبول جان، سعید اظہر، سلمان غنی، ڈاکٹر صغرا صدف، مجاہد منصوری اور اس خاکسار سمیت دیگر نے جی بھر کر خراجِ عقیدت پیش کیا۔
اگلے دن جیو کے پروگرام ’’خبرناک‘‘ میں شریک ہونے کا موقع ملا جہاں طاہر سرور میر کی محبت جاگ رہی تھی۔ ’’خبرناک‘‘کی میزبان عائشہ جہاں زیب زبردست اینکر ہیں ورنہ قہقہوں کو سنبھالنا ہر اینکر کے بس کی بات نہیں۔ عائشہ جہاں زیب کو یہ ہنر خوب آتا ہے۔
آج اسلام آباد میں بھیگتا ہوا موسم ہے، اس برستے موسم میں سپریم کورٹ میں اہم مقدمہ چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر اپنا اپنا سچ بیان کیا جا رہا ہے جبکہ اصل سچ کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ جاتے جاتے اسلم گورداسپوری کا شعر ؎
اس عشق میں سب آپ کے بن جائیں گے رقیب
اتنا بھی اُس کے حسن کا چرچا نہ کیجئے


.
تازہ ترین