• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اساں اپنے پک نوں رکھیا ای!
آرمی چیف قمر باجوہ نے افغان صدر کو فون پر بتایا کہ امن کے لئے الزامات نہیں بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں، بلیم گیم سے امن دشمن مضبوط ہوں گے، امن دشمن ہی اگر افغان صدر کی صدارت کا باعث بنے ہوں تو یہ جانتے ہوئے کہ ضربِ عضب نے دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ باقی نہیں رہنے دیا وہ کیوں نہ بلیم گیم میں چھکے چوکے ماریں، بہرحال آرمی چیف پاکستان نے اچھا کیا کہ ٹیلی فون پر واضح باتوں کو مزید واضح کر دیا، بارڈر کے ساتھ افغانستان میں 19بھارتی قونصل خانے کیا وہاں جھک مارنے کے لئے قائم ہیں، یہ قونصل خانے ’’را‘‘ خانے ہیں اپنی کمین گاہوں سے تو بھارتی کمینگی کے تیر چلتے ہیں، کیا اشرف غنی اتنی بڑی تعداد میں یہ بھارتی قونصل خانے دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان پیار محبت بڑھانے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں یا پھر حکم حاکم مرگ مفاجات والا معاملہ ہے، افغان عوام سے کوئی پوچھتا نہیں ورنہ وہ افغان صدر کو بتا دیں کہ بالآخر پاک افغان تعلقات حسب ماضی قائم ہوں گے اور اس افغان دھرتی سے سارے بدیسی کینچوے اپنے اپنے دیس سدھاریں گے، پاکستان سرِ دست افغانستان کی بابت ’’سوہنی‘‘ والی پالیسی اختیار کئے رکھے جس نے کچے گھڑے سے کہا تھا؎
تیرے کچ دی نئیں پروا سانوں
اساں اپنے پک نوں رکھیا ای
وقت کے بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ گزر جائے گا، وقت نہیں انسان گزر جاتا ہے، چہرے بدل جاتے ہیں، اور وقت اپنے پائوں پر ایک جگہ کھڑا اپنے فیصلے سناتا رہتا ہے، بہرحال ہم سب سر رہگزر کھڑے ہیں باری باری گزر جائیں گے، اور کوئی تو آئیں گے جو پانسہ پلٹ دیں گے، گلوبل ویلیج میں جتنے چوہدری ہیں، وہ بھی گزر جائیں گے، کیوں جب کوئی ایک سررہگزر تک آ گیا تو پھر صرف گاڑی پکڑنا باقی رہ جاتا ہے۔
٭٭٭٭
مجھ سے پہلی سی ’’گیس بجلی‘‘ مرے محبوب نہ مانگ
پنجاب میں گیس بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ گھریلو صارفین کے لئے گیس کی مقدار گھٹا کر کارخانوں کو دی جا رہی ہے، پنجاب کے صارفین کے لئے بجلی کے بعد اب گیس سپلائی دردِ سر بن گئی ہے، ہم جانتے ہیں کہ حکومت بجلی گیس وافر مقدار میں دینا چاہتی ہے، لیکن شاید یہ ترجیحات کی غلط ترتیب ہے جس نے عوام کا ناک میں دم کر رکھا ہے، حکمرانوں کا کوئی خاص قصور نہیں، اب دیکھئے نا کہ اورنج ٹرین کس قدر ضروری ہے، اگر یہ منصوبہ نامکمل رہ گیا تو گیس بجلی صارفین کو زیادہ بڑا نقصان ہو گا، اورنج ٹرین کے بغیر ہنڈیا چولہے پر کیسے چڑھے گی، گڈ گورننس بلاشبہ ہے لیکن اسے نافذ کرنا تو اب حکومت کی ذمہ داری نہیں، یہ اب مجبوری ہے کہ گیس اول تو آتی نہیں اور اگر تھوڑی سی آ بھی جائے تو کمپریسر لگا کر ایک صارف کئی صارفین کے حصے کی گیس کھینچ لیتا ہے حکومت سردی کے باعث لاغر ہے اتنی بھی سکت نہیں کہ کمپریسر کھینچ سکے، جرم بلاوجہ شوقیہ پیدا نہیں ہوتا، اگر گیس کا پریشر اور اس کی مقدار تسلی بخش ہوتی تو یہ کمپریسر بھی استعمال کرنے کا جرم کسی سے سرزد نہ ہوتا، متعلقہ وزیر باتدبیر نے کہا تھا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے سردیوں میں گیس کا کوئی پرابلم نہ ہو گا، لیکن جھوٹ آخر جھوٹ ہوتا ہے طفل تسلی بھانڈا پھوڑ دیتی ہے، ہمیں معلوم ہے اس ملک میں بجلی پوری ہو گی نہ گیس، بس پوری ہو گی تو ’’مدت‘‘ اور اب اس کی تکمیل میں تھوڑا عرصہ باقی رہ گیا ہے، کسی نہ کسی طور وہ بھی گزر جائے گا، اب تو درخت جنگل بھی نہ رہے کہ لکڑی جلا کے دل جلنے کا علاج کیا جائے، بلکہ فصلوں کے لئے زمین باقی نہیں رہے گی وہاں بھی لوگ اُگیں گے، بس یہ کہاوت حکومت کے گلے کا ہار بنی رہے گی کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا، جنوری آدھا گزر گیا، پھر بسنت پالا اڑنت، اور صارفین سورج کی گرمی سے انڈے ابال ابال کھائیں گے۔
٭٭٭٭
ہم سب طرم خان ہیں!
اب یہ تو معلوم نہیں کہ یہ طرم خان کون تھے ان کا شجرہ نسب کیا تھا، مگر کوئی ایسی شخصیت ضرور تھے کہ وقت کا محاورہ بن گئے، اور ہم سا ہے کوئی تو سامنے آئے کا استعارہ بن گئے، بہرحال وہ جو کوئی بھی تھے ہم اپنے طرم خانوں کی بات کرتے ہیں اور اجتماعی حوالے سے پوری قوم کے طرم خان ہونے کی بات کرتے ہیں، ایک بیوی نے ایک دوسری بیوی سے کہا بہنا! اگر تیرا خاوند سیر ہے تو میرا سوا سیر ہے، کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، اور ہاں اپنے خاوند کو یہ بات نہ بتانا کہیں وہ وزن برابر نہ کر دے، ایک دانا سے کسی نے پوچھا آپ کی نظر میں واجب القتل کون ہے، اس نے کہا:’’میں‘‘ اگر ہم اپنی میں کو مار دیں تو اس کے نیچے سے ’’خودی‘‘ کا پودا اُگے گا، اور تناور درخت بن کر خود دھوپ میں دوسروں کو چھائوں میں رکھے گا، اور یہی خودی ہی تو ہے جس کی تمنا اقبالؒ نے پوری مسلم امہ کے لئے کی تھی، یوں تو ہم سب طرم خان ہیں مگر ہمارے درمیان ایک عدد طرم خان ایسے بھی ہیں کہ زبان ایک جگہ ٹکتی ہے نہ قدم، بس وہ ایک دھن میں سر پہ نہ جانے کس چیز کی ٹوکری اٹھائے لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلتے جا رہے ہیں، اور اچانک یو ٹرن لے کر پھر سے نقطۂ آغاز کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں، اب تو یہ صدائیں بھی بلند ہونے لگی ہیں کہ وہ دیوانے ہو گئے، اور ہم جو شاعر کبھی ہوتے تو ان کے لئے یوں کہتے؎
کوئی دیوانگی سی دیوانگی ہے
دشت کو دیکھ کے تُو یاد آیا
جن افراد کے پاس کچھ جوہر قابل ہوتا ہے ان کے سر عجز سے جھکے جھکے سے رہتے ہیں، اور جن کے پاس کچھ مایہ عقل و خرد نہیں ہوتا وہ یہ ہوتے ہیں کہ ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘
٭٭٭٭
عرض کیا ہے!
....Oچیئرمین نیب قمر زمان:پاکستان کو بدعنوانی سے پاک کر دیں گے،
اللہ!ایسا نہ کیجئے گا پھر ہم کس کو ناپاک کریں گے۔
....Oسراج الحق:ملک پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی حکمرانی ہے۔
مولوی ڈپٹی نذیر احمد نے منٹو پر مقدمہ کیا تو انگریز جج نے پوچھا:مولوی صاحب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا جو شاعر اور ادیب ہوتے ہیں ان کے اعصاب پر عورت سوار رہتی ہے، اس پر منٹو نے کہا تو کیا گھوڑے ہاتھی سوار ہوں؟
....Oلاہور میں سرما کی پہلی بارش،
آسمان، حکومت پاکستان نہیں آخر برس ہی پڑا، اور موسم خوشگوار کر گیا، عرض کیا ہے؎
لو آیا جھوم کے پکوڑوں کا موسم
بننے کو نئے نویلے جوڑوں کا موسم


.
تازہ ترین