• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یو ں تو بطور قوم ہم میں بہت ساری خامیاں ہیں جس پر ہم نے نہ کبھی شرمندگی محسوس کی ہے اور نہ ہی ان خامیوں کو بہتر کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے لیکن ایک خامی ایسی بھی ہے جو ہم پر بد نما داغ کی طرح مسلط ہے اور اس میں ہر طبقہ زندگی کے لوگ شامل ہیں۔یہ ہمارا ٹریفک کا نظام ہے جس کے بگاڑ میں ہم سب شامل ہیں اور ٹریفک کا بگاڑ ہماری زندگیوں پر اس طرح اثر انداز ہو رہا ہے کہ ہم میں صبر و تحمل ختم ہوچکا ہے ، چڑ چڑا پن اور غصہ ہماری ناک پر ہر وقت دھر ا رہتا ہے اور آئے روز ہم سڑکوں ، چوراہوں اور بازاروں میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں نظر آتے ہیں ۔ یہ صرف ہمارے ملک میں ہی ہوتا ہے کہ یوٹرن دور ہونے کی وجہ سے ہم ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شارٹ کٹ مارتے ہیں ۔یہ بھی ہمارے ہی ملک میں ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل کو چلانے والا تو پولیس کے ڈر سے ہیلمٹ پہنتا ہے لیکن اس کی پچھلی نشست پر بیٹھی سواری جو ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی بھی ہو سکتی ہے اسکے لئے ہیلمٹ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا جاتا اسی طرح موٹر سائیکل ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے والے معصوم بچے جو ٹینکی پہ بیٹھے ہوتے ہیں انکے لئے ہیلمٹ تو کیا شائد معیاری ٹوپی بھی نہیں ہوتی ۔ چلیں ہم تھوڑی دیر کے لئے معاشرتی نہ ہمواری اور وسائل کی کمی کو تسلیم کرتے ہوئے اس خامی کو درگزر کر دیتے ہیں جس میں ہم پچھلی نشست پہ بیٹھی سواری اور ٹینکی پر بیٹھے بچوں کے لئے ہیلمٹ ضروری نہیں سمجھتے لیکن نوجوانوں کی ون ویلنگ اور بظاہر سمجھدارنظر آنے والے لوگوں کی ڈرائیونگ کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل سواروں پر ٹریفک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا یا انہوں نے خود سے سوچ رکھا ہے کہ اپنی زندگی اور دوسری گاڑیوں کو خطرے میں ڈال کر زگ زیگ ہوتے ہوئے سب سے آگے ہی رہنا ہے اس سے چاہے کسی کار والے کے سائیڈ مرر (Mirror)ٹوٹیں ، کسی نئی گاڑی کوا سکریچ آجائے یا کوئی پیدل چلنے والا موٹر سائیکل سے ٹکرا جائے انہیں اس کی قطعاً کوئی پروا نہیں ۔ نہ لائن نہ لین ، نہ ٹریفک اصول اور نہ ہی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ اور نہ موٹر سائیکل کی ملکیت کے کاغذات اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت یا اہمیت ہوتی ہے ۔ موٹر سائیکل سوار تو خطر ناک ڈرائیونگ تو کرتے ہی ہیں لیکن رکشہ اور چنگ چی ہماری شاہراہوں کی ایسی شیطان سواریاں اور گاڑیاں ہیں جن میں شائد بریک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور نہ ہی ڈرائیور کو اپنے پچھلے پھیلے ہوئے حصے کی پروا ہوتی ہے وہ جس سے چاہے ٹکرائے ، جس کو مرضی رگڑ لگائے ، جہاں سے مرضی مڑ جائے ، انکی اپنی بادشاہی ہوتی ہے اور ان سواریوں میں انڈیکیٹر نامی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ بڑی عمر کے ڈرائیور سے لے کر کم عمر بچے ان وہیکلز کو چلاتے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے ٹریفک کا ایک اور اچھوتا شاہکار سوزوکی وین ہے ۔ انکے لئے سواریاں اٹھانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی اسٹاپ ہو یا سڑک کا کنارہ انکا دل چاہے تو سڑک کے عین وسط میں گاڑی کھڑی کرکے سواریاں بٹھانے لگیں یا دوسری گاڑی والے سے گپیں لگانے لگیں اور جتنی چاہے سواریاں ٹھونس لیں یہ ہر پابندی اور قانون سے آزاد ہیں ۔ جی ٹی روڈ کے ٹریفک کا تو جنگل کے قانون سے بھی بد تر حال ہے ۔ آوارہ کتے ، تانگے ، ریڑھے ، بیل گاڑیاں ، ٹریکٹر ٹرالیاں ، اپنے حجم اور گنجائش سے سامان لادے ٹرک ، ڈولتی پرانی بسیں اور وین گاڑیاں جس طرح جی ٹی روڈ پر چلتی ہیں ٹریفک کا یہ نظام کسی معجزے سے کم نہیں، معلوم نہیں کہ کوئی کتا کس وقت سڑک کراس کرنے کا فیصلہ کر لے یا پہلے سے بے ہنگم اور منہ زور گاڑیوں کی زد میں آکر معذور ہوجانے والا کتا خود کو گھسیٹتا سڑک کے عین وسط میں سستانے بیٹھ جائے ۔ ٹریکٹر کے ساتھ بندھی ٹرالی جس پر اتنا کچھ لدا ہوتا ہے کہ نہ اسکے آگے لگا ٹریکٹر یا ڈرائیور دیکھا جا سکتا ہے بلکہ سڑک کے عین بیچ چلانا انکی ضرورت ہوتی ہے ۔ بڑی اور فراٹے بھرتی گاڑیوں کو صرف ایک چیز معلوم ہوتی ہے کہ وہ جی ٹی روڈ پر اپنی ہی شان و شوکت سے سفر کریں ،اگلی گاڑی کے پاس دائیں بائیں ہونے کا کوئی راستہ ہے کہ نہیں وہ انکے ڈپر پر فوراً راستہ کلئیر کر دے ۔ بڑے شہروں میں تجاوزات کی موجودگی ، ناکارہ سگنلز اور ٹریفک پولیس کی اہلکاروں کی اپنی مرضی سے ڈیوٹی کرنے یانہ کرنے کی روش نے ٹریفک کے مسائل پیدا کر رکھے ہیں اسکے علاوہ ان شہروں میں ہر سائز کے اسپیڈ بریکرز یا لگائے گئے جمپ ریفلیکٹرز یا کیٹ آئی کے اکھڑے ہوئے حصے، گاڑی کے نچلے پارٹس اور ٹائروں کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ٹریفک کی ان ساری خرابیوں پر توجہ دینے کے لئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا اعلیٰ سطح اجلاس بلا کر ان پر غور کرنا تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے جو سب کے لئے خوشگوار اور ٹریفک کے نظام کو سہل کرنے کا باعث بن سکتا ہے ٹریفک کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں ٹریفک کو بطور مضمون شامل کیا جائے ، تھینک یوخادمِ اعلیٰ، مجھے امید ہے کہ اس معاملے پر مثبت پیش رفت ہوگی اور ہم اپنی اس بد نما خامی کو بہتر کر سکیں گے ۔

.
تازہ ترین