• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گورنر ہائوس سندھ میں متعدد بار میرا آنا جانا رہا ہے مگر آج جب میں گورنر ہائوس میں داخل ہوا تو وہاں ایک عجیب افسردہ ماحول تھا،در و دیوار پر غم کے سائے چھائے ہوئے تھے جبکہ آج یہاں آنے والے ہر شخص کے چہرے پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ گورنر ہائوس کا وہ ہال جہاں دو ماہ قبل گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی تقریب حلف برداری منعقد ہوئی تھی، آج دو ماہ بعد سوگواروں سے بھرا ہوا تھا جن میں بیشتر وہ شخصیات تھیں جو حلف برداری تقریب میں بھی شریک تھے جن میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ، دیگر جج صاحبان، سعید الزماں صدیقی مرحوم کے صاحبزادے افنان صدیقی اور اُن کے قریبی رفقاء بھی شامل تھے۔ آج ان شخصیات کے چہرے افسردہ کیوں نہ ہوتے کیونکہ گورنر ہائوس کا مکین اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ اس موقع پر جب میں نے افنان صدیقی کو گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑے۔ میں نے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد ایک عظیم شخص تھے جن کی موت سے آج پوری قوم سوگوار ہے۔
معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی جن کا شمار مرحوم گورنر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے، کی امامت میں گورنر ہائوس کے ہال میں موجود تمام افراد نے نماز جمعہ ادا کی جس کے بعد ہمیں نماز جنازہ کیلئے گورنر ہائوس کے وسیع لان میں لے جایا گیا۔ نماز جنازہ سے قبل کراچی میں خلاف توقع آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ کسی وقت باران رحمت نازل ہوجائے گی۔ نماز جنازہ میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، صوبائی وزراء، میئر کراچی وسیم اختر، ڈپٹی میئر ارشد وہرہ، ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن، سینیٹر سلیم ضیاء، سینیٹر نہال ہاشمی، پاک فوج، نیوی اور پولیس کے اعلیٰ افسران شریک تھے جبکہ بزنس کمیونٹی کی طرف سے FPCCI کے صدر زبیر طفیل، سابق سینئر نائب صدر خالد تواب، میرے بھائی اختیار بیگ اور سینیٹر عبدالحسیب خان نے بھی شرکت کی۔ پاکستان نیوی کا چاق و چوبند دستہ قومی پرچم میں لپٹے مرحوم گورنر کی میت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لے کر پہنچا جس کے بعد اُن کی نماز جنازہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے فوراً بعد ہی بوندا باندی کا سلسلہ شروع ہوگیا جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ آج آسمان بھی جسٹس سعید الزماں صدیقی کی وفات پر اشکبار ہو۔ بعد ازاں گزری قبرستان میں مرحوم گورنر کی تدفین کی گئی۔
79 سالہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ کے 15 ویں چیف جسٹس اور سندھ کے 31 ویں گورنر تھے۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف بھی جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی نماز جنازہ میں شرکت کریں گے مگر وہ شریک نہ ہوسکے اور ان کی نمائندگی وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کی۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ ان دونوں شخصیات میں سے کوئی ایک شخصیت اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر نماز جنازہ میں شریک ہوتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی سندھ کے وہ پہلے گورنر تھے جن کی وفات گورنر ہائوس میں ہوئی اور ان کی نماز جنازہ بھی گورنر ہائوس میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد کچھ شرکاء اس بحث میں الجھ گئے کہ ’’جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو خرابی صحت کے باعث گورنر کا عہدہ قبول کرنا چاہئے تھا یا نہیں؟‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ اللہ کو شاید جسٹس (ر) سعید الزماں کی قومی اعزاز کے ساتھ تدفین مقصود تھی کیونکہ اگر وہ گورنر کے عہدے پر فائز نہ ہوتے تو اس اعزاز سے محروم رہتے۔ یاد رہے کہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کے گورنر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اُن کی خرابی صحت کی وجہ سے سوشل میڈیا پر تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس پر میں نے ایک کالم ’’بزرگوں کے ساتھ تضحیک آمیز ناروا سلوک‘‘ بھی تحریر کیا تھا۔ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور مذکورہ کالم کی اشاعت کے بعد انہوں نے مجھے انتہائی نحیف آواز میں فون کرکے کالم لکھنے پر شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اگر اُن پر تنقید یا تضحیک کرکے کسی کو خوشی حاصل ہورہی ہے تو انہیں خوش ہونے دیں، اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔‘‘ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ ’’طبیعت بہتر ہوتے ہی وہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے بچوں کیلئے گورنر ہائوس کراچی میں تقریب کا انعقاد کریں گے۔‘‘ واضح ہو کہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے بورڈ آف ٹرسٹی میں شامل تھے۔
بظاہر نحیف نظر آنے والے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی وہ شخصیت تھے جنہوں نے دو فوجی آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے مقابلہ کیا تھا۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب جنرل اسلم بیگ کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ ’’ضیاء دور حکومت میں انہوں نے وسیم سجاد کو اُس وقت کے چیف جسٹس کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ فوج، محمد خان جونیجو کی برطرف حکومت کی بحالی نہیں چاہتی۔‘‘ جسٹس سعید الزماں صدیقی نے جنرل اسلم بیگ کے بیان کو توہین عدالت قرار دے کر اُن کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن دیگر جج صاحبان کے عدم تعاون کی وجہ سے جسٹس سعید الزماں صدیقی کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی کا شمار اُن چند شخصیات میں ہوتا تھا جو شروع سے ہی جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات کے مخالف تھے۔ 1999ء میں انہوں نے یہ کہہ کر جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا کہ ’’میرے نزدیک پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اُس حلف سے غداری کے مترادف ہوگا جس میں، میں نے آئین پاکستان کے دفاع کی قسم کھائی تھی۔‘‘
بعد ازاں جسٹس سعید الزماں صدیقی کو فیملی سمیت نظر بند کردیا گیا۔ 2008ء کے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی نے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو اپنا مشترکہ صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا جبکہ 2013ء کے صدارتی انتخاب میں اُن کا نام (ن) لیگ کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے لیا جارہا تھا جس پر تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’اگر جسٹس سعید الزماں صدیقی صدارتی امیدوار نامزد ہوئے تو میں احتراماً صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لوں گا۔‘‘ تاہم صدارتی انتخاب میں جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی پر ممنون حسین کو فوقیت دی گئی جس پر جسٹس سعید الزماں صدیقی کو کافی رنج ہوا تھا کیونکہ ایسا کرنے سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ ممنون حسین اُن سے بہتر امیدوار تھے۔
جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے ریٹائرمنٹ کے بعد انتہائی سادگی سے زندگی گزاری اور ان کا گزر بسر پنشن پر ہوتا تھا۔ وہ کبھی کبھار ایک پرانے ماڈل کی کرولا کار میں میرے گھر دعوت پر تشریف لاتے تھے۔ انہوں نے حکومت سے کبھی بلٹ پروف مرسڈیز، فول پروف سیکورٹی یا دیگر مراعات کی فرمائش نہیں کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں 25 چیف جسٹس صاحبان گزرچکے ہیں جن میں سے کئی چیف جسٹس صاحبان ایسے تھے جنہوں نے ملکی مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دے کر اصولوں پر سمجھوتہ کیا، یہی وجہ ہے کہ انہیں تاریخ میں اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جاتا مگر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور جمہوریت کی خاطر اپنا عہدہ تک قربان کردیا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی کی وفات سے پاکستان ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے جس نے اپنی ساری زندگی اصولوں پر گزاری، اُن کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ سچ کے راستے پر چلیں، چاہے اِس کیلئے کتنی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔



.
تازہ ترین