• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوازشریف صاحب نے ایسا غور بھی کیا،مع اہل وعیال پچھلے دو ماہ سے، سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر جس تشہیر،اخلاقی کسمپرسی، اعتمادی خسارہ کی گرفت میں، کہیں اللہ کی طرف سے وارننگ تو نہیں؟ زیر بحث یہ نہیں، کہ وزیر اعظم قانونی جنگ جیت لیں گے، زیرغور اتنا، بعدازاں اخلاقی برتری کس معیار پر اترے گی؟
جناب وزیراعظم مسجد، مندر، گوردوارے، گرجا گھر توڑے بغیر، بلا امتیاز تمام شہریوں کے دل جیتنا اور انصاف دینا آپ کا فرض منصبی ہی تو ہے۔ بحیثیت انتظامی سربراہ آئین وقانون کی حکمرانی رائج کرنے کے آپ پابند ہیں۔ لوگوں کے دل جیتنے کیلئے، بھلا کسی غیر دینی،غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمی کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ آئین اور قانون کی نظرمیں تمام پاکستانی شہری برابر، جبکہ ہر شہری اپنی دینی، مذہبی رسومات ادا کرنے میں مکمل آزاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی تو پسند فرمایا، غیر مسلموں کیلئے ان کا نظام حیات اور مسلمانوں کیلئے فقط دین اللہ، ’’لکم دینکم ولی دین‘‘۔ صوفی کی عارفانہ کیفیت یا خود شناسی یا خدا شناسی، مملکت چلانے کا رہنما اصول بھلا کیونکر بن پائے؟ امور مملکت میں قرآن اور سنت ہی واحد سند رہیں گے۔ مملکت کی اساس اور بنیاد ہے بھی یہی۔ مرجع خلائق صوفی حضرت پیر مہر علیؒ شاہ صاحب اپنی مشہور تصنیف ’’تحقیق الحق فی کلمۃ الحق‘‘ میں جب ’’اصطلاح تصوف‘‘ یا صوفیانہ کیفیت پر قلم اٹھایا تو زیربحث اسرارورموز کو صرف صوفیوں تک مختص رکھنے کی تلقین فرمائی۔ ان کے نزدیک، ایسے الفاظ کے ادراک کیلئے ایسے صوفیاء کا ذہن چاہئے جو ایسی منازل سے گزریں توبھی قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کا دامن نہ چھوڑیں‘‘۔ کم وبیش تمام صوفیاء مجدد سرہندیؒ، شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت سلطان باہوؒ وغیرہ سب کی رائے متفقہ کہ’’تصوف کی جو جہت قرآن وسنت کی نفی میں آئے، حرام کہلائے گی‘‘۔ جناب وزیر اعظم! بلھے شاہ نے تو’’ یار منانے‘‘ کے جتن کا عندیہ بھی دیا، کیا آپ بھی منانے کیلئے ہر انتہا کو چھوئیں گے ؟
محترم وزیراعظم کی تقریری ترکیب وترتیب یقیناًکسی دوسرے کے قبضہ استبداد میں، کیا پرکھنے جانچنے کی استعداد بھی منتقل ہو چکی؟ کوئی پیمانہ تو منہ سے نکلے الفاظ کو تول پاتا۔ چند سال پہلے، بھارتی صحافیوں کے سامنے کی گئی گفتگو، آج بھی طبیعت مکدر رکھے ہے۔ کٹاس راج مندرمیں کی گئی تقریربہت کچھ ثبت کر گئی۔ پاکستان کی پیدائش و بناوٹ کے اجزائے ترکیبی سے قیادت کی لاعلمی اور ناشناسی آشکار رہی۔ نظریاتی جدوجہد کے نتیجہ میں قائم شدہ مملکت کے سربراہ کا ’’مسجد ڈھادے، مندر ڈھادے‘‘ جیسی عارفانہ تشبیہات، تمثیلات کو ماحاصل بنانا، ناواقفیت، کم علمی اور غیر مستقل مزاجی کی تکلیف دہ مثال ہے۔
1937کے الیکشن میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد، عظیم قائد نے مسلم لیگ کی سیاست کا ازسرنو جائزہ لیا۔ نتیجہ ایک ہی نکلا، ’’مسلمانوں کو جب تک اسلام کے اوپر اکسایا، ابھارا نہیں جاتا، دلچسپی واجبی رہے گی‘‘۔ پاکستان کاوجہ وجود(Raison d'etre) ایک نظریاتی بیانیہ ہی تو تھا۔ سند کی تصدیق وتوثیق جاہل، ناواقف، بے دین، دین بیزار، احساس کمتری کے مریض مکار فریبی کیونکر کریں گے؟ بدقسمت ریاست اور خوش قسمت نواز شریف صاحب کہ ’’بیانیہ‘‘ جانے سمجھے بغیر مسند وزارت عظمیٰ پر تیسری بار تعینات ہیں۔ مملکت کا وجود ہرگز حادثاتی نہیں تھا۔ یادش بخیر، جناب شہباز شریف کے گوش گزار کیا تھا کہ تیسری دفعہ کی وزارت عظمیٰ، گمان اغلب، قدرت کا بڑا کام لینا مقصدیا گرفت تنگ، اتمام حجت مقدر کیلئے ہے۔ جناب وزیراعظم! فیصلے کی گھڑی سے پہلے اللہ کے ہاں رجوع کی گنجائش موجود ہے۔ جلاوطنی سے واپسی پر یہی بتایا، واحد سہارا ’’آیت کریمہ‘‘ تھی۔ اقتدار ملنے پر اللہ کی رسی کو ہی تو مضبوطی سے تھامنا تھا۔ آج کہاں کھڑے ہیں، جائزہ لیں گے؟ غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ جناب وزیراعظم، تاریخ کی کتابوں میں امیر الامراء کا نام شاذو نادر ہی نظر آئے۔ البتہ سیاست میں بڑامقام بنانے پر حصہ بقدر جثہ اور سبق نہ سیکھنے والے بطور نشان عبرت درج ہیں۔ ’’دین اسلام اور اردو زبان‘‘، عظیم قائد اور بانیانِ پاکستان اپنی زندگیوں میں خدوخال بنا گئے۔ آنیوالوں کو پابند کر گئے۔ صد افسوس، ’’نظریہ اور زبان‘‘، غریب الوطن ہو چکے۔
قائداعظم،11اگست کی تقریر انتہائی اہم جبکہ ادائیگی کا وقت اس سے زیادہ کہیں گمبھیر اور نازک تھا۔ پورے ہندوستان میں، ہندو، سکھ اور مسلمان، قتل وغارت، بلوہ، لوٹ مار کی زد میں تھے۔ فسادات کی آگ آسمان کو چھو رہی تھی۔ عظیم قائد کی تقریر حالات اور واقعات کے عین مطابق، موقع کی مناسبت سے، تاریخ سیاست کی موزوں ترین تقریر کہلائی۔ اسلامی تعلیمات کے بھی عین مطابق۔ تقریر کا باربار حوالہ دے کر نظریہ کو اندھیروں میں دھکیلنا، کیونکر ممکن ہے؟ معتبر بھارتی سیاسی مورخ (H.M. Seervai) نے اپنی کتاب Partition of India اور ولیم مٹز نے اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقاتی مقالے (The Political Career of Jinnah:1950) میں تسلسل سے ایسے واقعات کو ایک ترتیب سے دھرایا ہے۔ دونوں کا لب لباب، ’’جناح نے 1938میں ایک نئی سیاست کا نیا نظریاتی بیانیہ دیا۔ ولیم مٹز کی تحقیق تو تھی ہی دوقومی نظریہ کی تہہ تک پہنچنا۔ بقول مٹز، ’’اقبال نے جناح کی دلجمعی سے نظریاتی رہنمائی کی، خصوصاً اقبال بنام جناح، خط 9نے دین اسلام کے اوپر مسلمانوں کو ابھارنے پر اکسانے کا کہا‘‘۔ ’’جناح نے اقبالی خیال کو من وعن پکڑ لیا۔ دوقومی نظریہ بنیاد بنا۔ تاریخی تحریک برپا ہوئی۔ دو سال اندر (1940)مسلمانانِ ہند جناح کی قیادت میں ابھر کھڑے ہوئے‘‘۔ قبل ازیں اقبال نے دہائی پہلے اپنے خطبات الہ آباد میں صراحت کے ساتھ یہی دہائی دی ’’اسلام، مسلمانوں کیلئے دائمی نظریہ حیات ہے۔ جو تمام زندگی کی جزئیات اور مسائل کا مکمل حل دیتا ہے، مسلمانوں کو اپنے نظریہ اور نظام کیلئے علیحدہ ملک حاصل کرنا ہوگا‘‘۔ عظیم قائد نے آخری سانس تک اسلامی نظریاتی اصولوں کی تشریح، توضیح، توجیح، توثیق میں زندگی وقف رکھی۔ عظیم قائد کے دوقومی نظریہ پر گاندھی جی نے ڈان (مارچ،1941) میں مقالہ لکھا، حاصل کلام اتناکہ ’’جناح کا نیا بیانیہ باہمی نفرتیں اور تفریق بڑھائے گا‘‘۔ عظیم قائد نے اگلے دن، ڈان میں جوابی بیان دیا۔ ’’کیسے ممکن، اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم باقی انسانوں سے مساوی سلوک کریں۔ پاکستان میں ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں اور جماعتوں کے ساتھ مساویانہ اور عادلانہ سلوک، ہم پر لازم ہے‘‘۔ قائداعظم نے درجنوں سینکڑوں تقاریر کیں۔ جو تقاریر سے زیادہ تعلیمات اور رہنماء اصول تھے۔
جہالت، منافقت، دغا، دھوکہ، عظیم قائد کی سینکڑوں تقاریر نظر انداز اور ایک تقریر نمایاں۔ دانشوارانہ بددیانتی کی انتہا ملاحظہ، جیسے عظیم قائد نے پوری زندگی صرف ایک ہی تقریر کی ہو۔ اپنے مطلب کا معانی تلاش کرنا، تجاہل عارفانہ سے زیادہ دانشوارانہ مکاری سمجھیں۔ دل دہل رہا ہے، یقین ہو چلا کہ موجودہ دور اقتدار، مملکت کو اس کے اساسی نظریاتی اصولوں سے مزید دور لے جائے گا۔ نظریاتی طور پر بانجھ حکومت 10ہزار میگاواٹ بجلی کی اضافی پیداوار، پلوں، سٹرکوں میں اپنی جائے امان ڈھونڈھ چکی۔ نظریہ کی فکر، گرد ونواح سے تاحد نگاہ موجود نہیں۔ جس پارٹی کی کوکھ سے مملکت اسلامیہ نے جنم لیا ہو، شریف فیملی کے قبضہ میں، آج بے سمت ہو چکی ہے۔ اے اہل اقتدار پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی، بات ذہن نشین کر لیں، الیکشن میں سیاست ترجیح بنے گی۔ ترقیاتی کام ثانوی رہیں گے۔ خاطر جمع، ترقیاتی منصوبے سیاست کو چار چاند لگانے میں کمزور رہیں گے۔ ترقیاتی کام جناب پرویز الہٰی کے کم نہ تھے۔ سیاست کی غیر موجودگی میں، منہ بولتا ثبوت، تاریخی شکست نصیب بنی۔ اگر سیاست میں مقام حاصل کرنا ہے توصدقِ دل سے نظریاتی سیاست کو رہنما اصول بنانا ہو گا۔ ’’اسلام اور اردو‘‘ کو باوثوق، معتبر، قابل یقین جانا تو کامیابی یقینی، اللہ کی رضا بھی یہی۔ یقین دلاتا ہوں جس تشہیر، اخلاقی کسمپرسی، اعتمادی خسارا کی گرفت میں آج آپ کی جان ہلکان ہونے کو، ایسے جھٹکوں سے پلک جھپکتے گزر جانا بھی مقدر ٹھہرے گا۔



.
تازہ ترین