• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی فکری تاریخ کے بارے میں بنائے گئے اکثر بیانیوں میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ مذہب کے ناتے یہ ملک مسلمانوں کے فلسفیانہ افکار کا پرتو ہے۔ چنانچہ جب پاکستان میں فکری تنزل کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو اس سلسلے کو معتزلہ اور اشعریہ کے ساتھ ملا کر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان دو مکاتب افکار کے بعد ہم نے اجتہاد ترک کردیا اور اس لئے ہم منفی رجحانات کا شکار ہو گئے۔ اس طرح کے دعوئوں کے پس منظر میں یہ مفروضہ ہے کہ تہذیبی اور ثقافتی پہلوئوں سے مسلمان امہ ایک اکائی ہے اور انڈونیشیا سے لے کر افریقی مسلمان ممالک تک ایک ہی طرح کے فکری ارتقا سے گزر رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکار ’تشکیل جدید الہیات‘ میں لکھتے ہوئے یہی مفروضہ اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ دوسرے معنوں میں علامہ اقبال نے اس مفروضے پر اپنے افکار کی بنیاد رکھی ہے کہ تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔
جس شہر لاہور میں بیٹھ کر علامہ اقبال اپنے افکار مرتب کر رہے تھے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو اجاگر کر رہے تھے اس شہر میں مسلمان نچلے طبقوں میں پس ماندگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ مسلمانوں کا درمیانہ طبقہ نہ ہونے کے برابر تھااور شہر کی سیاسی، معاشی اور ثقافتی زندگی پر ہندوئوں کا راج تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا کچھ انگریز کے آنے سے پیشتر ہی تھا: شہر میں مٹھی بھر فارسی بولنے والی حکمراں اشرافیہ کے علاوہ عام مسلمان ’’جولاہے‘‘ کہلاتے تھے۔
پنجاب پر شمال سے آنے والے حملہ آوروں نے انگریز کے آنے سے پیشتر تقریباً سات سو سال حکومت کی لیکن اس میں مسلمانوں کی حالت زار تبدیل نہ ہوئی۔ انگریزوں کی کی ہوئی کسی بھی مردم شماری کو اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں یاتو مسلمان جاگیردار تھے اور یا پھر کسان۔ شہروں میں مسلمان محنت کش طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ یہاں مذہب کی تبدیلی کسانوں اور شہروں کے نچلے طبقات میںہوئی تھی۔ شہروں کے درمیانے اور اعلیٰ طبقوں کے ہندوئوں نے مسلمان راج میں اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔ اسی لئے آج کے پاکستان کے بڑے شہروں کے کاروبار زندگی پر ہندوئوں کا غلبہ تھا۔
بظاہر نچلی ذاتوں کے عوام نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ان نچلی ذاتوں کے عوام کو مذہب تبدیل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا: ان کی زندگی جوں کی توں حالت زار کا شکار رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ باہر سے آئے ہوئے حکمران طبقاتی نظام کی وجہ سے نو مسلموں کو کمترسمجھتے تھے (حالانکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا) اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے تھے جو اس سے پہلے اوپر والی ذات کے ہندو کرتے تھے۔ تغلق دور کے مشہور تاریخ دان ضیاء الدین برنی نے فتوی جہانداری میںمسلمانوں میں ذات پات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نو مسلم پست درجے کے انسان ہوتے ہیں۔ اس طرح کے رویے کی جو بھی وجہ ہو یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند تک آج کے پاکستان کے نو مسلموں کی زندگی ہر طرح کی پسماندگی کا شکار تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے پاکستانی مسلمان اپنی شناخت ان افتادگاں خاک میں ڈھونڈیں جو صدیوں تک نیم غلامانہ زندگی گزارتے رہے یا ان مسلمان فاتحین کے ساتھ جو ان سے ناروا سلوک روا رکھتے تھے۔
پاکستان میں آج بھی بہت سے ترقی پسند یہ کہتے اور لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے معتزلہ کے بعد نئے فکری راستے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ معتزلہ افکار بغداد اور اس کے نواحی علاقوں میں مقبول ہوئے اور عربوں کی فکری ساخت کا حصہ بنے۔ کیا تجزیاتی سطح پر ہندوستان کی نچلی ذاتوں کے مسلمانوں (یا نو مسلموں) کو اس سیاق و سباق میں دیکھنا مناسب ہے؟ یا یہ کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا اپنا ایک فکری ارتقاہے جو مقامی مفکرین کے حوالے سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پنجاب کے مسلمانوں کے فکری ارتقاکو بابا فرید سے لے کر خواجہ غلام فرید جیسے مفکرین کے حوالے سے دیکھا جائے گااور سندھ کا شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے حوالے سے۔
اس مسئلے کو عیسائیت یا بدھ مت کے حوالوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا مغربی ممالک اس لئے ترقی یافتہ ہیں کہ عیسائی مذہب میں کوئی بہت بڑا اجتہاد ہوا ہے؟ پاپائے روم کی تعلیمات آج بھی تقریباً ویسی ہی ہیں جیسا کہ صدیوں پہلے تھیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مارٹن لوتھر نے جو اجتہاد کیا اس سے مغربی یورپ میں صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کو جلا ملی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی اجتہاد یورپ سے باہر لاطینی امریکہ یا دوسرے خطوں کے عیسائیوں کی زندگی میں کوئی انقلاب کیوں نہیں لا سکا۔ اور کیا چین اور جاپان کی ترقی بدھ مت یا شنتو مذہب میں کسی اجتہاد کا نتیجہ ہے؟ ظاہر بات ہے کہ دونوں ملکوں میں زرعی اصلاحات اور صنعتی انقلابات تبدیلی کی بنیادی وجہ بن رہے ہیں۔ اس طرح کی ترقی کا مذہبی اعتقادات پر اثر ہوا ہوگا لیکن یہ کہنا بالکل بلا جواز ہے کہ ان علاقوں کے مذہبی اعتقادات کی تبدیلی ان کی ترقی کا باعث بنی۔
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ اخذ کرنا بلا جواز نہیں ہوگا کہ ہمیں اپنے مسائل کی جڑیں اپنی تاریخ میں ڈھونڈنا چاہئیں۔ اور یہاں ہم سے مراد ہے ہندوستان کے پسے ہوئے نو مسلموں کی تاریخ۔ باہر سے آئے ہوئے مسلمان حکمرانوں نے اپنے مفادات کے تحت اپنی مرضی کی تاریخ لکھوائی۔ اور المیہ یہ ہے کہ یہی تاریخ ہمیں ورثے میں منتقل ہوئی۔ حکمرانوں کی اس طرح کی تاریخ سازی کا نتیجہ ہے کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کی حقیقی تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے ان پر مذہب اور زبان کے نام پر ایسا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو منصفانہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو گئے۔ آج بھی پاکستان میں مختلف قومیتوں کی اپنی اپنی ثقافتی اور فکری تاریخ ہے جس کا گہرا ادراک ہونا چاہئے۔



.
تازہ ترین