• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے پچھلے ساڑھے تین برسوں میں معیشت کے شعبے میں اصلاحات اور مشکل فیصلوں کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کیں، ان کا اعتراف بین الاقوامی مالیاتی اداروں، ریٹنگ ایجنسیوں اور معاشی تجزیہ کاروں کے جائزوں میں کیا جاتا رہا ہے مگر منگل کے روز سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے جس اجلاس کا آغاز ہوا، اس میں شرکت کرنے والے سیاسی رہنمائوں اور ممتاز سرمایہ کار اداروں کی پاکستان میں مختلف منصوبوں کے حوالے سے دلچسپی کے اظہار نے وطن عزیز کی معاشی ترقی کی نئی جہتوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کو حکومتوں، سرمایہ کار گروپوں، بینکاروں اور ماہرین معیشت کے ایسے اجتماع کی حیثیت حاصل ہے جس میں مختلف ممالک کے حکومتی ارکان اور تجارتی گروپ مطالعاتی تجزیوں اور باہمی دلچسپی کے امور پر ایک دوسرے سے مشاورت کرکے چیلنجوں کو مواقع میں بدلتے اور منصوبوں کو سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت کے ذریعے عملی شکل دینے کی راہیں نکالتے ہیں۔ ڈیووس کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کرنے والی شخصیات میں عالمی اقتصادی فورم کے چیئرمین کلاز شواب، علی بابا گروپ کے چیئرمین جیک ما، سوئس کنفیڈریشن کے صدر ڈورس لیوتھارڈ (Davis Leuthard)، سری لنکا کے وزیراعظم رینیل وکرما سنگھے، چیف ایگزیکٹو پراکٹر اینڈ کیمبل ڈیوڈ ٹیلر، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے گروپ چیف ایگزیکٹو آفیسر جوز وینالز(Jose vinals) ومپل کام کے گروپ چیف ایگزیکٹو آفیسر جین چارلی سمیت اہم سیاسی و تجارتی رہنما شامل تھے۔ ان شخصیات نے پاکستان میں معاشی ترقی کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو دیا۔ سوئس حکومت نے پاکستان کے ساتھ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں کام کرنے اور علی بابا گروپ نے آن لائن وینچر کے مزید فروغ کیلئے ای کامرس پلیٹ فارم کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ دیگر اداروں کی طرف سے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی فضا سازگار ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ آج کا پاکستان ماضی کے مقابلے میں مختلف اور کاروباری حلقے کے لئے مزید پرفضا مقام بن چکا ہے۔ بینکاری، تجارت، کاروبار اور حکومتوں کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی کامیاب تکمیل نے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ کیا ۔ ان ملاقاتوں میں پاک چین اقتصادی راہداری سے پیدا ہونے والے مواقع، انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں پاکستان کی ترقی، وسطی ایشیا کے ساتھ علاقائی روابط میں سبقت کیلئے پاکستان کی تیاری، سیکورٹی کی صورت حال میں بہتری اور توانائی کے منصوبوں کے نتائج پر جو حوصلہ افزا آرا سامنے آئیں، انہیں دیکھتے ہوئے نئی سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی و کامیابی کی بلندتر منازل کی طرف پیش قدمی کی توقعات کی جا سکتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پڑوسی ملک بھارت بھی پاک چین اقتصادی راہداری سمیت اس پاک سرزمین سے پیدا ہونے والے باہمی فوائد کے منصوبوں میں شامل ہوتا اور ایسی سازشوں سے اجتناب برتتا جن کا انکشاف آئے روز گرفتار ہونے والے بھارتی ایجنٹوں کے بیانات سے ہو رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ ہر قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر قدم بڑھا رہا ہے۔ مختلف اداروں اور حکومتوں کی طرف سے پاکستانی معیشت میں بہتری کا اعتراف ہمارے اکنامک منیجرز کی حوصلہ افزا کارکردگی کا مظہر ہے۔ تاہم اسٹیل ملز اور قومی ایئر لائن کو موجودہ مشکل صورتحال سے دوچار کرنے والے عوامل کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے۔ اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ٹیکسوں کی وصولی اور خرچ کے اہداف مجرد اعداد و شمار پر مبنی نہ ہوں بلکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ دولت کے بہائو کا رخ امیروں سے غریبوں کی طرف ہو۔ ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جائے جن سے روزگار کے مواقع بڑھیں۔ کوئی بچہ محض اس بناء پر تعلیم سے محروم نہ رہے کہ وہ غریب خاندان میں پیدا ہوا اور کوئی فرد وسائل کی کمیابی کے باعث علاج سے محروم نہ رہے۔


.
تازہ ترین