• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دانیال عزیز کے دائیں بائیں مائزہ حمید گجر اور زیب جعفر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شریف فیملی کی ترجمانی کا بوجھ گوجروں کے کندھوں پر آگیا ہے۔ دانیال عزیز، چوہدری انور عزیز کے صاحبزادے ہیں، انور عزیز چوہدری، بھٹو صاحب کی کابینہ کے اہم رکن تھے، 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن لڑ کر انہوں نے پیپلز پارٹی سے رستے جدا کر لئے۔ زیب جعفر کی والدہ بیگم عشرت اشرف کے والد چوہدری اشرف حیدرآباد سے پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم این اے کا الیکشن لڑا کرتے تھے۔ مسلم لیگ ن میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کےوالدین یا وہ خود پیپلز پارٹی کا حصہ رہے۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آرہی ہیں کہ میں اٹھارہ اور انیس جنوری کی درمیانی رات لائل پور (فیصل آباد) میں ہوں۔ لائل پور سے یاد آیا کہ ہم لوگ بڑے عجیب ہیں شہروں اور سڑکوں کومسلمان کرتے رہتے ہیں مگر اپنے کردار پر غور نہیں کرتے۔ حالانکہ پورے برصغیر میں اسلا م کردار کی وجہ سے پھیلا تھا۔ صوفیائے کرام صاحب کردار تھے لوگ ان کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ رفتہ رفتہ صاحب کردار رخصت ہوتے گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ کردار کے غازی ڈھونڈنا مشکل ہوگیا ہے۔
پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی میں صاحب کردار ہوا کرتے تھے، نظریات سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی عام آدمی کی پارٹی تھی، اس کے فیصلے جلسوں میں ہوتے تھے پھر پیپلز پارٹی خاص آدمیوں کی پارٹی بن گئی، عام آدمی پارٹی سے دور ہوتا گیا، پارٹی کے فیصلے ڈرائنگ روموں میں ہونے لگے۔ یہیں سے پیپلز پارٹی کی بدقسمتی کا سفر شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین نظریے سے ہٹتے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ضیاء الحق کی روحانی اولاد کی تابعداری شروع کردی۔ اس تابعداری نے رہی سہی کسر بھی نکال دی، آج پیپلز پارٹی پنجاب میں برے حالات کا شکار ہے۔ چونکہ میں یہ سطور اٹھارہ اور انیس جنوری کی درمیانی رات لکھ رہا ہوں لہٰذا مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ صبح بلاول بھٹو کی ریلی کیسی ہوگی مگر صورت حال کوئی خاص تسلی بخش نہیں ہے۔ لائل پور (فیصل آباد) جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا،آج کوئی قابل ذکر آدمی جس کا تعلق فیصل آباد شہر سے ہو، پیپلز پارٹی میں نہیں ہے، آخری قابل ذکر آدمی راجہ ریاض تھے جو اب تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔ باقی رہ گئے رانا آفتاب، رانا فاروق اور نواب شیروسیر، ان تینوں کا تعلق فیصل آبادشہر سے نہیں بلکہ فیصل آباد کے گردونواح سے ہے۔ پیپلز پارٹی کے بچے کھچے ووٹ کچی آبادیوں میں ہیں مگر اب جو زمانہ آگیا ہے اس میں کچی آبادیوں کے لوگ تو الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی انٹریاں زیادہ دھواں دھار نہیں ہیں پہلے وہ غیر سیاسی نوجوانوں میں پھنس گئے تھے۔ ان سے آصف علی زرداری نے جان چھڑوائی مگر اب پیپلز پارٹی کے عہدے جن لوگوں کو بانٹے گئے ہیں وہ سب کاری گر لوگ ہیں ان میں سے اکثر تو پیپلز پارٹی کے ساتھ نظریاتی طور پر بھی نہیں ہیں بلکہ پارٹی دفتر چلانے کیلئے بھی پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ موجودہ پیپلز پارٹی پنجاب کے ایک اہم عہدیدار، ایک سابق وفاقی وزیر کے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل ہونے گئے تھے مگر عمران خان نے انکار کردیا، بعد میں خان صاحب کہنے لگے کہ ان کی شہرت اچھی نہیں ہے۔
پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان نہیں ’’سائنسدان‘‘ نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ ہم بلاول بھٹو کی ریلی کا آغاز لاہور کے باہر سے کریں گے اور فیصل آباد جائیں گے۔ اس نام نہاد لیڈر (جس کا ایک بھائی جماعت اسلامی میں رہا ہے) کو یہ پتہ نہیں کہ بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز لاہور سے کیا تھا، اب یہ ’’سائنسدان‘‘ کہہ رہا ہے کہ چونکہ پیپلز پارٹی لاہور کے لوگ ناراض ہیں اس لئے لاہور کے باہر سے ریلی کا آغاز ہوگا، ناکامی کی صورت میں یہ ’’سائنسدان‘‘ کہے گا کہ میرا ’’قصور‘‘ نہیں ہے، میں نے تو بہت ’’جدوجہد‘‘ کی۔
اگر پیپلز پارٹی کے موجودہ عہدیداروں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلےگا کہ ان میں سے کسی کو بھی صوبائی سیاست کا تجربہ نہیں ہے۔ سب سابق ایم این اے رہے ہیں صوبائی سیاست سے اگر کسی کا تھوڑا بہت تعلق ہوسکتا ہے تو وہ ندیم افضل چن ہیں کہ ان کے والد حاجی افضل چن صوبائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ باقی سب محفلوں میں فلسفہ جھاڑنے والے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری سے ہمیں بھی پیار ہے لیکن ان کے ساتھ عجیب ہاتھ ہوا ہے کیونکہ موجودہ پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کا تعلق ایک ہی گروپ سے ہے۔ اس گروپ کا ایک اور رکن ’’مفاہمتی اپوزیشن لیڈر‘‘ بنا ہوا ہے۔ اسے بھی 2013ء کے الیکشن میں سکھر سے جگہ نہیں ملی تھی بلکہ انہیں گھوٹکی سے الیکشن لڑنا پڑا۔ بلاول بھٹو کو ایک بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ لوگ گھسے پٹے چہرے نہیں دیکھنا چاہتے اور پھر ایسے چہرے کہ جن کی وجہ سے پارٹی اس حال کو پہنچی۔ بلاول بھٹو زرداری کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں پارٹی سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔ ان کی اس ٹولے سے جان آصف علی زرداری ہی چھڑوا سکتے ہیں مگر آصف علی زرداری امریکہ پہنچے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ان کےساتھ ذہین ترین شیری رحمٰن اور متحرک رحمٰن ملک ہیں۔ شیری رحمٰن عالمی امور کو سمجھنے والی ماہر خاتون ہیں، انہیں لکھنے اور بولنے دونوں پر عبور حاصل ہے۔
بلاول بھٹو کی خوش قسمتی بھی ہے کہ وہ بی بی شہید کے صاحبزادے ہیں، بھٹو کے نواسے ہیں، حال ہی میں پیپلز پارٹی کے پرانے نظریاتی لوگوں نےانہیں جوائن کرنا شروع کردیا ہے۔ فیصل صالح حیات کے بعد ہوسکتا ہے کہ ملک غلام مصطفیٰ کھر سمیت کچھ اور لوگ بھی شامل ہو جائیں۔ بلاول بھٹو پارٹی میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، وہ پارٹی پالیسی بھی بدلنا چاہتے ہیں، انہیں مفاہمت کی سیاست سے اختلاف ہے، ان کا خیال ہے کہ مفاہمت کے دریا میں پارٹی کی نائو ڈوب جائے گی۔
بلاول بھٹو کو بہت کچھ کرنا پڑے گا، انہیں کارکنوں کو اپنے قریب کرنا پڑے گا، انہیں مفاہمت کے زہر آلود اثرات سے نکلنے میں بہت دیر لگے گی۔ انہیں سفر تیزی سے کرنا چاہئے مگر اس سفر میں دشواریاں بہت ہیں کہ بقول رخشندہ نوید؎
پرانی تصویر اب بھی البم سے جھانکتی ہے
وہ مجھ کو گھیرے کھڑا ہے لیکن حصار کم ہے


.
تازہ ترین