• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکٹرونک میڈیا کی آمد سے پہلے نوٹنکی اور اسٹیج ڈرامہ عوام الناس کی تفریح کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ ہر شہر میں تھیٹر آباد تھے اور فنکاروں کی چاندی ہوا کرتی تھی۔ دفعتاً سنسر بورڈ اور انتظامیہ کو خیال آیا کہ ان تھیٹرز میں تو جگت بازی کی آڑ میں بیہودہ اور ذومعنی جملے بازی ہوتی ہے جس سے نوجوان نسل گمراہ ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے انتظامیہ نے سنسر شپ کی دو دھاری تلوار چلائی تو رفتہ رفتہ یہ تھیٹر ویران ہوتے چلے گئے اور مسخروں نے نیوز چینلز کا رُخ کر لیا۔ کامیڈی شوز کے نام پر اسٹیج ڈراموں کا ری مکس شروع ہوا تو فنکاروں کی معقول تعداد کو روزگار مل گیا اور شوبز سے وابستہ آرٹسٹوں کی ایک بڑی تعداد مارننگ شوز کی صورت میں ایڈجسٹ ہو گئی مگر جب سے سیاسی جگت بازی شروع ہوئی ہے ان سب کا دھندہ مندا پڑ گیا ہے۔ اب ناظرین ان پیشہ ور جگت بازوں کے گھسے پٹے جملوں سے لطف اٹھانے کے بجائے سیاسی جگت بازی سے محظوظ ہوتے ہیں۔
شیخ رشید اور خواجہ آصف جیسے منجھے ہوئے کہنہ مشق جملے باز تو پہلے ہی کھڑکی توڑ مقبولیت حاصل کر چکے تھے مگر جب سے پانامہ کا ڈرامہ شروع ہوا ہے، ناپختہ اور غیر آزمودہ بذلہ سنج درباریوں کو بھی اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع میسر آیا ہے اور بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے اس مقدمے کی بلاناغہ سماعت کا فیصلہ کر کے شائقین کے دل جیت لئے ہیں۔ عدالت میں تو سنجیدہ سوالات اور خشک قانونی موضوعات زیر بحث آتے ہیں اس لئے رہنمایان قوم اونگھتے رہتے ہیں مگر سماعت ختم ہونے کے بعد جب احاطہ عدالت میں بریفنگ کے نام پر تھیٹر لگتا ہے تو مرجھائے اور اکتائے ہوئے چہروں پر رونق آجاتی ہے۔ دوپہر کے شو کے بعد اس ڈرامے کا دوسرا شو شام کے بعد ٹاک شوز کی صورت میں لگتا ہے جب فریقین ذومعنی جملوں سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب تک عدالت میں نعیم بخاری کے دلائل جاری تھے تو حزب اقتدار کے جگت بازوں کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا تھا اور وہ معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ بہت جلد یہ پٹیشنز خارج ہونے والی ہیں۔ مگر جونہی وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دینا شروع کئے تو ججز کے ریمارکس بدل جانے سے صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور اب حزب اختلاف کے نمائندوں کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اور وہ پورے وثوق سے یہ بات کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ بس اب وکٹ اڑنے والی ہے، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔
جب پانامہ کا معاملہ عدالت میں گیا تو شریف خاندان کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ تکنیکی نوعیت کے اعتراضات اٹھاتے اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھنے دیتے۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ قانون کی عدالت میں ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں کئے جا سکتے اور سپریم کورٹ سے کلین چٹ لیکر نکلیں گے تو سیاسی مخالفین کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت انہوں نے یہ بات نظرانداز کر دی کہ براہ راست نشریات کے اس دور میں جب اس قدر ہائی پروفائل کیس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہو گا تو ایک عدالت ٹی وی چینلز پر بھی سجے گی جہاں بحث و تمحیص قانونی پیچیدگیوں کی پابند نہیں ہوتی۔ عدالتی کارروائی تو براہ راست عوام تک نہیں پہنچتی مگر اس متوازی عدالت کی نشریات تک ناظرین کو براہ راست رسائی حاصل ہے اور اس کارروائی سے متاثر ہو کر ہی عوام اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہم عمران خان کو بھگا بھگا کر ماریں گے لیکن یوں لگتا ہے کہ اسے تھکانے والے خود ہانپنے لگے ہیں۔
نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے موکل کے دفاع میں جو دلائل دیئے ہیں، وہ قانونی اعتبار سے تو بہت موثر اور ٹھوس ہیں لیکن عوام کی نظر میں انتہائی بودے اور بھونڈے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور اسے عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، اس کی عوامی تشریح یہ ہے کہ غلط بیانی تو کی گئی ہے مگر اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ اسی طرح عدالت کے روبرو کہا گیا کہ چار سال کے دوران وزیراعظم نواز شریف کو ان کے صاحبزاے حسین نواز نے 52کروڑ روپے تحفتاً دیئے۔ جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ حسین نواز کے ذرائع آمدن کیا ہیں تو ترنت جواب ملتا ہے کہ یہ تو ان کے وکیل بتائیں گے میں تو نواز شریف کا وکیل ہوں۔ اس کے بعد مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا معاملہ آتا ہے تو مخدوم علی خان کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی زمین اور دیگر اثاثہ جات ہیں اور وہ اپنے اخراجات خود اٹھاتی ہیں۔ ان کے لئے نواز شریف نے زمین خریدی جب مریم نے رقم ادا کر دی تو وہ ان کے نام کر دی گئی۔ جب عدالت مریم نواز کے اثاثہ جات کے بارے میں پوچھتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ تو ان کے وکیل ہی بتائیں گے۔ ایک دوست نے چند روز قبل کورٹ نمبر ایک میں ہونے والی عدالتی کارروائی کا فرضی خاکہ کچھ یوں بیان کیا تھا:’’عدالت مخدوم علی خان سے:آپ کے موکل نوازشریف کہاں رہتے ہیں؟ مخدوم علی خان:جی وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ عدالت پوچھتی ہے ان کی والدہ کہاں رہتی ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بہو کے ساتھ رہتی ہیں۔ عدالت جھنجھلا کر کہتی ہے تو یہ بتائیں کلثوم نواز کہاں رہتی ہیں۔ وکیل بتاتے ہیں ،وہ تو اپنی بیٹی مریم کے ساتھ رہتی ہیں۔ پانچ رکنی بنچ تنگ آ کر پوچھتا ہے، تو بتائیں ان سب کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ وکیل بتاتا ہے کہ لندن سے حسن اورحسین تحفتاً پیسے بھیجتے ہیں۔ عدالت پوچھتی ہے ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ تو وکیل صاحب اطمینان سے جواب دیتے ہیں، یہ تو ان کے وکیل اپنی باری آنے پر بتائیں گے۔ معزز جج صاحبان سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سماعت ملتوی کر دی جاتی ہے‘‘
بدعنوانی کے الزامات تو پیپلزپارٹی کے خلاف بھی کسی عدالت میں ثابت نہیں کئے جا سکے تھے مگر عوامی عدالت کے فیصلے نے ہی انہیں رد کر دیا۔ قانون کی عدالت جو بھی فیصلہ کرے، میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ عوامی عدالت میں پانامہ لیکس کا فیصلہ نوازشریف کے خلاف ہو چکا ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ انہیں باعزت بری کر دے تو بھی سیاسی اعتبار سے ان کی ساکھ خراب ہو چکی اور آئندہ انتخابات میں پانامہ لیکس کا بھوت ان کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا۔

.
تازہ ترین