• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہرام جو میرے بچپن کا دوست ہے، آج کل دنیا پور کے قرب و جوار میں رہتا ہے۔ پچھلے دنوں شام ڈھلے مجھ سے ملنے آیا، صوفے پر بیٹھتے ہی اس کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ اورنج ٹرین پر خرچ ہو رہا ہے، جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو خانیوال سے لودھراں تک یک طرفہ سڑک اور ریلوے ٹریک کو ڈبل بنانے کی توفیق نہیں ہوئی، حالانکہ کراچی سے آنے والی ہیوی ٹریفک اسی سڑک سے گزرتی ہے۔ اُس نے کہا پورا لاہور اُدھڑا ہوا ہے، بیماریاں پھوٹ رہی ہیں اور قرضے چڑھ رہے ہیں۔ اس کی ترش باتوں نے میرے اندر اورنج ٹرین کے پورے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا احساس پیدا کیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کے بعد جناب خواجہ احمد حسان اس منصوبے کے سب سے زیادہ راز آشنا ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرے اُن کے عظیم المرتبت والد جناب خواجہ امان اللہ سے دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کار سیٹھ احمد داؤد کی کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور جملہ ذیلی کمپنیوں کے بورڈز پر تھے۔ وہ اسلام اور پاکستان سے قابلِ رشک وابستگی اور اپنی فرض شناسی اور دیانت داری کی نہایت عمدہ شہرت رکھتے تھے۔ اس پس منظر میں راقم نے جناب خواجہ احمد حسان سے اورنج ٹرین کی مکمل تصویر پیش کرنے کی درخواست کی جس پر انہوں نے ایک ہوشربا اور دلکشا کہانی سے پردہ اُٹھایا۔
خواجہ صاحب نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف جب دوسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے، تو انہوں نے غیر ملکی ماہرین سے گرین میٹرو ٹرین کا سروے کرایا اور پورا منصوبہ تیار کیا۔ وہ قرضہ لینے چین گئے جس نے آمادگی ظاہر کی، مگر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ضمانت (Sovereign Guarantee)دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر گرین میٹرو ٹرین کا منصوبہ میٹرو بس میں تبدیل ہوا اور صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ آج اس آرام دہ اور نہایت کم خرچ میٹرو بس کے ذریعے ایک لاکھ سے زائد شہری فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
اُن کی رواں دواں گفتگو سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جرمن ماہرین نے اورنج لائن میٹرو ٹرین کو لاہور کے لئے بہترین کاریڈور قرار دیا۔ یہ ٹریک 27.12کلو میٹر لمبا ہے جس میں سے 1.72کلو میٹر زیر زمین اور باقی زمین سے اونچائی پر ہے۔ اس طرح اس کے کل اسٹیشن 26ہیں جن میں سے 2زیر زمین ہیں۔ یہ راستہ ملتان روڈ سے جی ٹی روڈ پر واقع ڈیرہ گجراں تک جاتا ہے اور فاصلے کم کرتا ہے۔ اس منصوبے کی ڈیزائننگ میں تین اہم نکات بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ اوّل یہ کہ زیادہ سے زیادہ شہری اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ دوم یہ کہ کم سے کم زمین حاصل کرنی پڑے۔ تیسرا یہ کہ تاریخی ورثے کی پوری پوری حفاظت کی جائے۔ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر مشتہر کیا گیا اور اس شرط کے ساتھ ٹینڈر طلب کیے گئے کہ وہ مالی وسائل کا خود انتظام کریں گے۔ اشتہارات جنوری 2014ء میں دیے گئے اور جواب میں صرف دو چینی کمپنیوں نے ٹینڈر بھرے۔ اپریل میں چین اور پاکستان کے دوطرفہ معاملات پر غور کرنے کے لیے بیجنگ میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ پاکستان کی نمائندگی جناب وزیراعظم کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب نے کی۔ اس وفد میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین جناب احسن اقبال، محترمہ نرگس سیٹھی اور فضلِ علیم سبطین بھی تھے۔ اجلاس میں جناب شہباز شریف نے توانائی کے منصوبوں کو اوّلین اہمیت دی اور آخر میں دھیمے لہجے میں یہ بھی کہا کہ ہم اورنج ٹرین کی تعمیر میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ منصوبہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اُسی روز چین کے وزیراعظم کی طرف سے دعوت کا اہتمام تھا۔ ہمارے وہاں پہنچنے پر چینی وزیراعظم نے جناب شہباز شریف کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا کہ آپ نے جس اورنج ٹرین منصوبے کا ذکر کیا ہے، چین اس کے لئے آسان شرائط پر قرض دینے پر تیار ہے اور وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستانی عوام کیلئے چین کی طرف سے ایک تحفہ ہو گا۔ ہمارے وفد کے لئے ایک بے پایاں خوشی کا سرمدی لمحہ تھا۔
اب ہمارے سامنے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے کا مرحلہ تھا۔ چین کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی لیڈر نے اس مقصد کے لئے کمیٹی تشکیل دی جس کے ساتھ ہمارے دو روز تک مذاکرات ہوتے رہے۔ پہلا مرحلہ قرضے کی مالیت اور شرح سود کا تعین کرنا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ منصوبے پانچ پانچ سال چلتے رہتے ہیں اور سود بڑھتا جاتا ہے۔ ہم اپنے چینی دوستوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے کہ ہم یہ منصوبہ دوسال کے اندر مکمل کر لیں گے، چنانچہ چینی حکومت نے 2.13ارب ڈالر قرضے کا تخمینہ لگایا جو ہماری مذاکراتی کوششوں سے صرف 1.47ارب ڈالر رہ گیا۔ سود کی تین شرحیں تھیں۔ اسٹرٹیجک قرضے پر سود ایک سے دو فیصد، رعایتی قرضوں کی شرح تین سے چار فیصد جبکہ کمرشل قرضوں کی شرح سود چھ سے سات فیصد تھی۔ چینی وفد کا اصرار تھا کہ ہم آپ کو اسٹرٹیجک قرضے نہیں دیں گے اور مذاکرات رعایتی اور کمرشل قرضوں کے بارے میں کیے جا سکتے ہیں۔ گفت و شنید کا یہ سلسلہ سات آٹھ مہینوں پر محیط رہا اور ہمیں دس بارہ دفعہ چین جانا پڑا اور آخرکار اس کی قیادت کو اوسطاً 2.24فیصد شرح سود پر راضی کر لیا۔ یہ مذاکرات بڑے اعصاب شکن تھے اور ہم نے پاکستان کے مفاد میں سخت مشقت اور عرق ریزی سے کام لیا تھا اور اپنا یہ موقف منوایا کہ اس منصوبے میں ہماری رضامندی شامل ہونی چاہئے۔
خوش قسمتی سے یہ بھی طے پایا کہ اورنج ٹرین کا پورا سول ورکس پاکستان کرے گا جو ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ اس سے ہماری کنسٹرکشن کمپنیاں اپ گریڈ ہوئیں اور ہزاروں انجینئروں کو روزگار مل رہا ہے۔ کام تیزی سے جاری ہے اور اِن شاءاللہ دسمبر 2017ء تک یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ پہلے ہی روز ڈھائی لاکھ مسافر جدید ترین پبلک ٹرانسپورٹ سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اُن کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔اب صرف اُن مقامات پر کام ہائیکورٹ کے حکمِ امتناعی کے باعث ادھورا پڑا ہے۔ ڈیزائننگ میں اِس امر کا پورا پورا اہتمام کیا گیا کہ اورنج ٹرین کے چلنے سے تاریخی عمارتوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ہم انتہائی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اِس میں گڑگڑاہٹ (Vibration) 0.03درجے تک رہ گئی ہے۔ میں پچھلے دنوں روم گیا۔ وہاں تاریخی عمارتوں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ موجود ہے۔ اب اس کے درمیان سے میٹرو ٹرین گزرتی ہے جس میں ہزاروں سیاح آتے ہیں۔
اورنج ٹرین کے چلنے سے تاریخی مقامات دیکھنے والوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہو گا۔ ان کی دیکھ بھال پہلے سے کئی گنا بہتر ہو جائے گی۔ میں خواجہ صاحب سے اجازت لے کر اُٹھنے لگا، تو انہوں نے نہایت گہرا نقش ثبت کرنے والا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے متاثرین کو بڑی فراخ دلی اور عزت کے ساتھ معاوضے ادا کیے گئے ہیں۔ جین مندر کے دو تین ہزار لوگ متاثر ہوئے تھے اور بعض حلقے مصنوعی احتجاج کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ میں چوتھے روز جین مندر گیا، وہاں سینکڑوں کی تعداد میں برقع پوش خواتین جمع تھیں۔ دو مجھے ملیں، اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے یک زبان ہو کر حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بڑی عزت اور کمال فیاضی سے معاوضے ادا کیے ہیں۔ یہ ان کے اندر سے پھوٹنے والی خوشی کے آنسو تھے۔

.
تازہ ترین