• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محکمہ موسمیات والے کبھی نہیں سمجھیں گے۔ ان کی یہ سادگی اتنی پرانی ہے کہ کوئی پچاس سال پہلے کسی مشہور کالم نویس نے لکھا تھا کہ محکمہ موسمیات والوں کو چاہئے کہ موسم کا حال بتانے اور پیشن گوئی کرنے سے پہلے ذرا کھڑکی سے باہر دیکھ لیا کریں۔ آج جب اکیسویںصدی کے بھی سولہ سترہ برس ٹھکانے لگ چکے ہیں، اس محکمے والوں کو ایک بات سمجھانے کو جی چاہتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ زمانے لد گئے جب موسم دیوار پر ٹنگے کیلنڈر کے حساب سے آیا اور جایا کرتے تھے۔ پانی سے لدی پھندی گھٹائیں جون کے شروع میں دندناتی ہوئی آجاتی تھیں اور ستمبر تک برسا کرتی تھیں۔ آتی اب بھی ہیں لیکن دنیا کا موسم بدل رہا ہے، گھٹاؤں کو بھی آنے جانے میں کچھ تامّل سا ہونے لگا ہے۔ مگر یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہوگئی ہے کہ دنیا کا موسم بدل رہا ہے۔
ہاں ایک مخلوق ہے جسے ابھی تک خبر نہیں کہ موسم کے تیور بدل رہے ہیں، وہ مخلوق جو طے کرتی ہے کہ اسکول کے بچّوں کو گرمیوں کی چھٹیاں کب دی جائیں اور سردیوں کی کب؟۔ ہم ٹیلی وژن پر مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ غضب کا جاڑا ہے، کہر ہے، دھند چھائی ہے اور لوگوں کے دانت بج رہے ہیں لیکن مظلوم بچّے کوٹ، مفلر،دستانے پہنے اور سر پر اونی ٹوپیاں منڈھے کانپتے ہوئے اسکول کی طرف لپک رہے ہیں۔ اس لئے نہیں لپک رہے ہیں کہ دیر ہورہی ہے بلکہ اس لئے دوڑ لگارہے ہیں کہ اس طرح شاید بدن کچھ گرم رہے۔ سبب کیا ہے؟ کسی زمانے میں انگریز موسم گرما اور سرما کی جوتاریخیں طے کرگئے تھے ان کے وہ فیصلے پتھر کی لکیر ہوگئے ہیں۔ محکمہ موسمیات چاہے تو گزرے ہوئے تیس چالیس برسوں کا ریکارڈ نکالے، کسی اسکول کے طالب علم سے اس کا گراف بنوالے۔ صاف نظر آجائے گا کہ گرما اور سرما کے شباب کے دن اپنے پرانے ٹھکانے سے کس قدر سرک گئے ہیں اور بچّوں کی حالت پر کب ترس کھانا چاہئے۔ ابھی جو دن گزر رہے ہیں جب جاڑا دانت پیستا ہوا آیا ہے، بچوںکو اس لئے چھٹی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کیلنڈر کے حساب سے پہلے ہی دی جاچکی ہے۔ چلئے مانا کہ بھول ہوگئی لیکن اب جو جاڑا ٹوٹ کے آیا ہے اور اسکول بند کردینے ہی میں عافیت ہے، اسکول بند نہیں ہو رہے ہیں۔ سبب اس کا یہ بتا یا جارہا ہے کہ حکام بالا مشاورت کررہے ہیں۔ میں نے خبروں میں یہ جملہ سنا کہ بچوں کو کچھ روز کی چھٹی دینے کے سوال پر غور ہورہا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ بڑی سی میز کے گرد حکام سر جوڑے بیٹھے ہیں اور ذہن پر زور ڈال کر غور کر رہے ہیں کہ یوں موسم کے آگے ہتھیار ڈالنے سے قوم کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچے گا۔ غور ہو رہا ہے کہ بچوں کو چند روز اپنے گھروں پر ٹھہرنے کا فیصلہ ملک کے مستقبل پر کس طرح اثر انداز ہوگا۔ اس بات پر غور کرنے کی کسی کو توفیق نہیں کہ جن لاکھوں، بلا مبالغہ لاکھوں بچّوں کو اسکول کی صورت دیکھنا بھی نصیب نہیں، جنہیں ہاتھ میں قلم پکڑنے کی سعادت بھی میّسر نہیں، ان کے دن دن بھر مار ے مارے پھرنے سے ملک و قوم کے حال اور مستقبل کا کیا حشر ہو گا۔ رہ گیا ماضی، اس پر فاتحہ پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔ غور کی بات پر یاد آیا کہ موسم آج برفانی ہے، چاہیں تو کل صبح سے اسکول بند کردیں۔ جی نہیں، سرکاری فائلیں گھوم رہی ہیں، نوٹی فکیشن لکھے اور بھیجے جارہے ہیں، اس میں چار پانچ دن نکل جائیں گے اور کہنے کو سردی کا زور ٹوٹ جائے گا مگر اتنے دنوں میں نہ جانے کتنے بچوں کی جان پر بن آئے گی۔ ابھی تین چار روز پہلے کی بات ہے، ایک ماں اپنے بچّے کو سینے سے لگائے ٹرین میں سفر کر رہی تھی جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی اور ان کے شیشے غائب تھے۔ ٹھنڈک نے جو ٹرین کے اندر یلغار کی،کمسن بچّہ ٹھٹھر کر مرگیا۔
ایسے ہی حالات سے دہشت زدہ ہوکر میں اپنے بال بچوں کو ساتھ لے کر انگلستان آگیا تھا۔ یہاں کے موسم کا حال نہ پوچھئے۔ خدا جانے کس کے مزاج سے تشبیہ دی جائے۔ گھڑی میں کچھ ہے، گھڑی میں کچھ۔ اور اگر آپ کو گھر سے نکلنا ہے، کہیں جانا ہے، کوئی کام کرنا ہے، جیب سے اپنا اسمارٹ فون نکالئے، یا لیپ ٹاپ کھولئے یا ریڈیو اور ٹیلی وژن لگائیے اور موسم کا حال اس تفصیل سے دیکھئے کہ کس علاقے میں کتنے بجے کیسا موسم ہوگا۔ یہاں ہر محلے کاہر گھڑی کا موسم بتایا جاتا ہے۔ صرف ایک بارجہاں تک مجھے علم ہے، ان چالیس پینتالیس برسوں میں صرف ایک بار یہ ہوا کہ موسم والوں نے نہیں بتایا اور آدھی رات کو اس قیامت کی ہوا چلی کہ درخت اکھڑ گئے اور چھتیں اُڑ گئیں۔ لوگوں نے فرانس سے فون کر کے برطانیہ والوں کو بتایا کہ ایک طوفان تمہاری سمت جارہا ہے لیکن محکمہ والوں کو خبر نہ ہوئی۔ اس کے بعد پورا محکمہ موسمیات بہت عرصے تک شرمندگی کے مارے منہ چھپائے رہا اور معذرتیں کرتا رہا۔ آج تک موسم کی بات ہو تو اس واقعہ کا ذکر آجاتا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں ہوا، خبر آئی تھی کہ جاپان والے پاکستان کو موسمیات کے متعلق آلات کا پورا نظا م دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ نہ صرف وہ آلات مل گئے ہوں گے بلکہ انہیں چلانے اور کام میں لانے کا ہنر بھی سیکھ لیا گیا ہوگا۔ ورنہ معمول تو یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد خبر آتی ہے کہ سارے کل پرزے پڑے زنگ کھا رہے ہیں۔ موسم کی بات خاص طور پر پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے بے حد اہم ہے۔ اس کا معیشت سے گہرا تعلق ہے کہ یہ محکمہ چاہے تو اس کی سرزمین سے چاندی اُگے اور چاہے تو خاک اُڑے۔

.
تازہ ترین