• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قسمت کی طاقت آئین اور قانون اور اس طرح کے دیگر امور سے ماورا ہوتی ہے ۔ان معاملات کی ہمارے وہم و گمان میں سمائی ہوتی ہے ،نہ ہماری توقعات کی کمندان کا احاطہ کرسکتی ہے ، اور ان کی گرفت کے سامنے آپ مکمل بے بسی کی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ کیا شریف فیملی تصورکرسکتی تھی کہ پاناما کیس ان کے لئے سوہان ِروح بن جائے گا؟ پاناما پاکستان سے اتنی ہی دور ہے جتنے ایک دوسرے سے قطبین، لیکن اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا۔ اس فاصلاتی جال کی دراز ہوتی ہوئی رسی میں شریف فیملی کا پھنس جانے والا پائوں پوری کوشش کے باوجود آزاد نہیں ہورہا۔ صدر ِمملکت ، ممنون حسین صاحب کے منہ سے بے ساختہ سچ نکل گیا تھا کہ پاناما انکشافات ایک بلائے ناگہانی ہیں۔
ذرا دیکھیں، جج صاحبان حکمران خاندان کے وکلا، جن میں سے کچھ کا شمار پاکستان کے بہترین قانون دانوں میں ہوتا ہے، سے کس طرح کرید کرید کر سوالات پوچھے رہے ہیں، لیکن ان کی ذہانت اور نکتہ آفرینی کیا کرسکتی ہے جب ان کے پاس شریف فیملی کی چھپائی ہوئی دولت اور خفیہ طریقے سے بیرون ِملک خریدی گئی جائیداد کا دفاع کرنے کے لئے ٹھوس موادکی غیر موجودگی ہے ۔میرے دوست، مخدوم علی خان اب ان کا قانونی دفاع کرنے کی کوشش میں ہیں ، لیکن کسی تعصب کو دل میں جگہ دئیے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے کیس ہی ایسا ہے جس کا سرپیر کم از کم کسی انسان کی سمجھ میں تو نہیں آسکتا۔ میں مخدوم صاحب کو اپنا دوست قرار دیتا ہوں کیونکہ کئی سال پہلے جب میں ایک بائیں بازو کے ہفتہ روزہ رسالے ، ’’ویوپوائنٹ‘‘ کے لئے کالم لکھتا تھا تو مخدوم صاحب بھی اس کے لئے کبھی کبھار لکھتے تھے ۔ اس کے بعد اُن کی توجہ دیگر امور کی طرف ہوگئی، اور پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں طویل عرصے تک اٹارنی جنرل کے فرائض سرانجام دیتے دکھائی دئیے ۔ اب وہ نواز شریف کے وکیل ہیں، ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘۔
جب پہلے پہل جسٹس جمالی کی عدالت میں پاناما کیس پر درخواستیں دائر کی گئیںتو کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ معاملہ ایسا رخ اختیار کرتے ہوئے حکمران خاندان کے لئے پیر ِ تسمہ پا بن جائے گا۔جب جسٹس جمالی صاحب رخصت ہوئے تو یہ کیس اُن کے جانشیں، موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان، کے پاس آگیااور بطور چیف جسٹس اُن کی سب سے پہلی کارروائی پاناما کیس کی سماعت کے لئے جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں ایک بنچ تشکیل دینا تھا تو اُس وقت کوئی بہت گہری بصیرت رکھنے والا مبصر ہی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اہم ترین کیسز میں سے ایک بن جانے والے اس کیس کے کیا ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں۔ اب خدا ہی جانتاہے کہ یہ کیس اس نہج تک کس طرح پہنچا، اور جو افرادالہامی طاقت سے بے بہرہ ہیں، اُنہیں قبل از وقت نتائج نکالنے سے گریز کرنا چاہئے، لیکن پوچھے جانے والے سوالات ، سچ جاننے کی جان توڑ کوشش،سمندر میں غوطہ لگا کر موتی کی تلاش، اور اس دوران میرے دوست مخدوم علی خان کو تنی ہوئی رسی پرچلتے دیکھ کر ہمیں حالات کا کچھ انداز ہ ہورہا ہے ۔یقینا خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔
شریف برادران کی حکومت کا یہ بہتر ین سال ہونا چاہئے تھا۔ وہ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے ، نئے میگا پروجیکٹس کا اعلان کرتے ، اور نہایت پرسکون ماحول میں، جبکہ راوی چین ہی چین لکھتا، اگلے عام انتخابات کی طرف بڑھ جاتے ، بالکل جس طرح طیب اردوان ترکی کے سیاسی منظر نامے میں اپنی فتوحات کا رنگ بھرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ قسمت کا چکر الٹا چل نکلا ۔ حکمران خاندان اسکینڈل کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور ا س سے مالیاتی امور اور رقم کے ٹریل کے بارے میں سوالات پوچھے جارہے ہیں، انکے بیٹوں اور بیٹی کا نام عدالت میں لیا جاتا ہے ۔تمام خاندان قومی سطح پر طنزیہ جملوں اور مذاق کا نشانہ بن چکا ، بھاری بھرکم مینڈیٹ اور مہنگے منصوبوں کی دھول پاناما نامی صحرا میں اُڑ رہی ہے ۔ اب تو یہ نام اس اسلامی جمہوریہ کے نوعمر بچوں کے منہ پر بھی چڑھ چکاہے ۔
یہ بات پہلے بھی کی جاچکی ، لیکن اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ شریف خاندان قسمت کا دھنی تھا۔ اس کے اہم افراد پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ کے کامیاب ترین سیاست دان ثابت ہوئے ۔ ان شاندار افراد نے کبھی بدقسمتی کا منہ نہ دیکھا اور نہ ہی حالات کے جبر کا شکار ہوئے ۔ فوجی آمر کی انگلی تھام کر مسکراتے ہوئے سیاسی عہدوں پر فائز ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ اوسط درجے کے سرمایہ دار تھے ، اور اُن کا کاروباری قد کاٹھ، مثال کے طور ،پر ولیکا، دائود اور آدم جی سے بہت کم تھا۔ لیکن اقدار کیاملا، ان کے ہاتھ پارس کا پتھر لگ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی متمول سرمایہ دار بن گئے ۔
اقتدار میں آنے کے بعد برق رفتاری سے چمکدار زینہ طے کرنے کے حوالے سے ان پر غیر شفاف مالیاتی امور کے الزامات اورکچھ افواہیں ہمیشہ سے گردش میں رہیں، اور ان میں سے کچھ محض الزامات ہی نہ تھے جیسا کہ مبینہ مشکوک مالیاتی لین دین، نامعلوم افراد کے نام سے کھولے گئے غیرملکی بنک اکائونٹس، جو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں استعمال ہوئے۔ مشرف کے شب خون کے بعد ان کے خلا ف بہت سی تحقیقات شروع ہوئیں ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتیں، وہ مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کرکے صحرائی دوستوں کا ہاتھ تھام کر یہ جا وہ جا۔ اس کے بعد جمہوریت کی واپسی نے دوسابق سیاسی حریفوں، جن کی رقابت نے گزشتہ ایک عشرے سے سیا سی ماحول کو نقطہ ٔ کھولائو پر رکھا تھا، کوہم نوالہ و ہم پیالیہ( محاورۃً) دیکھا۔ پی پی پی نے شریف برادران کے خلاف کیسز نہ کھولے، جبکہ شریف برادران بھی دوسرے فریق کی الف لیلیٰ سناتے رہے ۔ تاہم شریف برادران اتنے عقل مند ضرور تھے کہ اُنھوںنے کلیئرنس کے لئے عدالتوں کارخ کیا ، اور عدالتوں نے بھی مضبوط استغاثہ کی غیر موجودگی میں اُنہیں ریلیف دے دیا۔ دوسرے الفاظ میں شریف برادران کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئی ، اُن کے خلاف عدالت میں کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ قانونی اصطلاح میں وہ دودھ کے دھلے ، بالکل اجلے نکلے ۔ حتیٰ کہ اصغر خان کیس ، جو 1990 ء کی دہائی کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے آئی ایس آئی کی طرف سے شریف برادران اور کچھ دیگر سیاست دانوں کو فراہم کردہ رقوم کے بارے میںتھا، بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ماڈل ٹائون کیس ، جس میں دو خواتین سمیت چودہ افراد کو پولیس فائرنگ سے ہلاک کردیا گیاتھا، بھی سرد خانے کی نذر ہوچکا۔ لیکن پھر اچانک ، جیسے لہرپلٹا کھاتی ہے، یا شہابیہ فضا کوشعلہ بار کرتا ہو ا دھماکے سے زمین پر گر کرلرزہ طاری کردیتاہے ، پاناما کیس قسمت کے کوڑے کی طرح لہرایااور اب عوام دم بخود ۔ قہریہ ہے کہ اب شریف فیملی بارگین بھی نہیں کرسکتی کیونکہ عدلیہ ماضی کو دفن کرتے ہوئے آزاد فضا میں سانس لے رہی ہے ۔ آج خفیہ ہدایات دینے کے لئے کوئی شریف الدین پیرزادہ یا وسیم سجاد موجود نہیں ۔ نہ کوئی رفیق تارڑ ، جیسا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں ہوا تھا۔ آج نظریہ ٔ ضرورت دم توڑ چکاہے ۔ اب پی سی او نافذ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ افتخار محمد چوہدری پر دیگر معاملات میں نکتہ چینی کی جاسکتی ہے لیکن اُنھوںنے سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے کردیا۔ ہم نہیں جانتے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا لیکن ہمیں یہ ضرور پتہ ہوتا ہے کہ اگلا چیف جسٹس آف پاکستان کون ہوگا۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ خود کو زیادہ محفوظ اور توانا محسوس کرتی ہے ۔ آزادی کے اس ماحول میں اس کیس کی سماعت جاری ہے ۔ اس کامطلب ہے کہ پاکستان آخرکار آسیب زدہ جنگل سے نکل کر مثبت راہوں کی طرف قدم بڑھا رہا ہے ۔ آج اسٹیبلشمنٹ بھی ویسی مقدس گائے نہیں ہے ، اور نہ ہی میڈیا کسی کا فرماں بردار ہے ۔ بہت سی دیگر تبدیلیاں ہویداہیں۔ مختصر یہ کہ ہم وہ نہیں رہے جو کچھ ہوا کرتے تھے ۔

.
تازہ ترین