• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس ، جس کی سپریم کورٹ میںسماعت جاری ہے، کو ہماری موجودہ تاریخ کا ایسا کیس قرار دیا جاسکتا ہے جس پر عوام اور مبصرین کی ایک بڑی تعدادمقسم رائے رکھتی ہے ۔کیس میںدلچسپی لینے والے زیادہ تر افراد نے اپنے ذہن میں فیصلہ طے کر رکھا ہے ۔ اُنھوںنے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ اُن کے فیصلے کی تصدیق کرتا ہے یا نہیں۔ اس طرح یہ ایک مشکل کیس ہے ، اور مشکل صرف قانونی معروضات کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ اس میں بہت سے نوک دار اخلاقی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ چنانچہ اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس کے مضمرات ہم سب کو کسی نہ کسی حوالے سے متاثر کریں گے ۔
اپوزیشن کی جماعتوں اور ان کے حامیوں کو یقین ہے کہ لندن کے فلیٹس خریدنے کے لئے کالا دھن استعمال کیا گیااور نواز شریف اور ان کے اہل ِ خانہ اس جائیداد کی خریداری کی وضاحت کرتے ہوئے سفید جھوٹ بول رہے ہیں، چنانچہ پاناما کیس ہوشربا بدعنوانی کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا سنہری موقع ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جب تک نواز شریف کو اس فیصلے کا نتیجہ شدید زک نہ پہنچا دے، پی پی پی اور پی ٹی آئی اگلے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کو شکست نہیں دے سکتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) اسے اپنے خلاف ایک سازش قراردیتی ہے، جس کا مقصد اسے اقتدار سے باہر کرنا ہے ۔ اُن کا موقف ہے کہ نواز شریف کے احتساب کا معاملہ پاکستانی عوام پر چھوڑ دیا جائے،وہ الیکشن کے موقع پر اپنے ووٹ سے فیصلہ سنادیں گے ۔ اُنھوں نے 2014 ء کا دھرنا اور پھر 2016 ء کا ’’دھرنا پلس ‘‘ بھی دیکھا ،چنانچہ وہ اس کیس کو اسی کھیل کی ایک قسط کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نجی ملاقاتوں میں پی ایم ایل (ن) کے بہت کم لیڈر شریف خاندان کی کہانی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی بات ہے ، چنانچہ سیاسی نظام کو چلتے رہنے کا موقع دینا چاہئے ۔ ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا چاہئے ۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ اگر دولت مند شریف فیملی نے لندن جائیداد خریدنے کے لئے غیر روایتی ذرائع سے رقم بھجوادی تھی تو کون سی قیامت آگئی ؟ اور پھر شریف خاندان کے مالیاتی امور بھی پی پی پی اور پی ٹی آئی کے دولت مندرہنمائوں سے مختلف نہیں ہیں۔نیز ملک میں ٹیکس دینے اور دستاویزی معیشت کا نظام انتہائی افسوس ناک ہے ، چنانچہ صرف ان پر ہی کیوں برق گرے؟
جو افراد اس کیس میں فریق نہیں ، بلکہ اس کا معروضی انداز میں جائزہ لیتے ہیں، اُن کی تشویش کی وجہ کچھ اور ہے ۔ ان کے نزدیک اس معاملے کا ایک اخلاقی پہلو ہے ۔ قطری شہزادے کی کہانی ایسی ہے جیسے کوئی دوست دوسرے دوست کا مشکل کے وقت ہاتھ تھامتا ہے ۔ بہت سے معاشروںمیں ، جن میں ہم بھی شامل ہیں، میں ذاتی وفاداری صیحح اور غلط کے تصورات پر غالب آتی ہے ۔ اسے نہ صرف قابل ِقبول ، بلکہ ایک مستحسن خوبی بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ مقام جہاں قانون اور اخلاقیات باہم گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔ آپ کیا کریں گے جب ایک طرف قانون کہتا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا، آپ بے گناہ ہیں، اورمطلوبہ ثبوت ہاتھ آتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ہم سب سانتاکلاز، سون پری اور دیگر دیومالائی کرداروں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ حیران کن کردار واقعی موجود ہوں، لیکن باشعور افراد ان کی موجودگی پر یقین نہیں رکھتے ۔ شریف فیملی کی طرف سے لندن فلیٹس کی ملکیت کا سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ثبوت تھیوری کے اعتبار سے ممکن ہے ، لیکن بہت سے لوگ اسے سچ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ چنانچہ اس مرحلے پر قانون اور اخلاقیات باہم متصادم دکھائی دیتے ہیں۔دنیا بھر کے قانون دان کئی زمانوں سے اس بات پر بحث کرتے رہے ہیں کہ کیا اخلاقیات قانون پر اتھارٹی رکھتی ہیں؟گزشتہ چند ایک صدیوں سے اس بات پر اتفاق ِ رائے دکھائی دیتا ہے کہ نہیں رکھتیں۔
بے گناہی کے مفروضے کے مطابق ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری مدعی کی، نہ کہ مدعاالیہ کی ہے ، اوریہی رومن کریمنل لا کی بنیاد ہے ۔ ہم اسی قانون کی پیروی کرتے ہیں، اور اس کی منطق بہت سادہ ہے ۔ ایک قانونی نظام کے لئے ضروری ہے کہ وہ احتیاط اور فعالیت کے درمیان درست توازن پیدا کرے ۔ اگر نظام ملزم کو قصور وار تسلیم کرتے ہوئے اُس کی تردید کی ذمہ داری اُس پر ڈال دے تو ہوسکتا ہے کہ بہت سے بے گناہ افراد اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکیں۔ یہ بات سب تسلیم کریں کہ یہ ظلم ہوگا۔ دوسری طرف جب نظام جرم ثابت ہونے تک بے گناہی تسلیم کرتا ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ ایک محفوظ راستے کا انتخاب کرتا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ غلطی کی صورت میں قصور وار کو سزا نہ مل سکے ۔ اب آپ خود فیصلہ کرلیجئے کہ بے گناہ کو سزا ملنا زیادہ افسوس ناک ہے یا شک کی بنیاد پر قصوروار کا بری ہونا؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نظام کے تحت ایک ملزم استغا ثہ کے جھول تلاش کرنے میں کامیاب رہتا ہے اورعدالت کا فیصلہ اُس کے حق میں ہوجاتا ہے اور اُسے سزا نہیں ملتی تو کیا اس کامطلب ہے کہ نظام اُسے بے گناہ تسلیم کرتا ہے ؟ہرگز نہیں۔ نظام یہ کہہ رہا ہے کہ مدعی اُس کے خلا ف جرم ثابت نہ کرسکا، واقعات و شہادت سے ایسا ٹھوس ثبوت نہ ملا جس کی بنیاد پر اُسے سزا سنائی جاتی۔ چنانچہ جرم ثابت نہ ہونے کا مطلب بے گناہی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ ایک امریکی فٹ بالر،او جے سمپسن(OJ Simpson) کاکیس یاد کیجئے۔ اس پر 1994 ء میں اپنی سابق بیوی نیکولو برائون سمپسن اور اس کے فرینڈ، رون گولڈ مین کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ وہ مقدمہ امریکی کریمنل کیسز کی تاریخ کا نسلی اعتبار سے انتہائی منقسم کیس بن گیا۔ جیوری کے مطابق او جے سمپسن پر قتل کا جرم ثابت نہیں ہوتا تھا۔ تاہم 1997 ء میںرون گولڈا سمتھ کے والدین نے اوجے سمپسن کے خلاف ایک سول کیس کرتے ہوئے موت کا باعث بننے کا الزام لگادیا۔ سول کیس ، جس میں ثبوت کا معیار قدرے کم ہوتا ہے ، میں جیوری کے مطابق او جے پر قتل کی ’’ذمہ داری ‘‘عائد ہوتی ہے ۔ چنانچہ اسے مقتولین کے خاندان کا نقصان کرنے کے الزام میں 33.5 ملین ڈالر جرمانہ کردیا۔ پہلے کیس میں جیوری نے یہ نہیںکہا تھا کہ وہ او جے بے گناہ ہے ، اسے صرف ایسا ٹھوس ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر اُسے قاتل قرار دیا جاتا۔
جسٹس سسٹم چلانے والے انسان ہیں اور اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی دیگر انسانوں کی طرح پسند ، ناپسند رکھتے اور سماجی رویوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس نظام کے تحت درست توازن یہی ہے کہ مجرم کو سزادینے کی کوشش میں کہیں کسی بے گناہ کو سزا نہ ہوجائے ۔ا سکاٹ کے قانون (Scots law) کے مطابق کریمنل ٹرائل کا نتیجہ ان تین میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے ’’مجرم، بے گناہ، جرم ثابت نہیں ہوا‘‘ ۔ ’’ جرم ثابت نہیں ہوا‘‘ کی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ جیوری کے مطابق سزاسنانے کے لئے مطلوبہ ثبوت کی کمی تھی، لیکن اس کامطلب بے گناہ ہونا نہیں۔ ایسے فیصلوںمیں قانون اور اخلاقی اقدار آمنے سامنے کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ پاناما کیس میں پاکستان قانون اور اخلاقیات کے درمیان معلق کھڑ اہے۔ قانون کا تقاضا ہے کہ ملزم جرم ثابت ہونے تک بے گناہ ہے ، اُسے شفاف مقدمے اور ٹھوس ثبوت کے بغیر سزا نہیںسنائی جاسکتی۔اخلاقیات کا تقاضا ، اور یہ بات عام فہم ، ہے کہ قصور وار کو سزا سنائی جائے تاکہ معاشرے کو پاک کیا جاسکے ۔ اگر کوئی ہاتھ خزانے میں جاتا دکھائی دیا ہے تو اسے سزا دی جائے تاکہ دیگر ہاتھوں کو اس کی جسارت نہ ہو۔ چنانچہ اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ آپ کے حکمران راست باز نہیں ، ٹھیک ہے، لیکن کیا آپ کے پاس اُنہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ثبوت موجود ہے ؟

.
تازہ ترین