• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیوس ورلڈ اکنامک فورم میں عالمی سیاسی، تجارتی رہنمائوں نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔
متذکرہ خبر کا خلاصہ میں نے محض ان خوش فہم قارئین کے لئے یہاں پیش کیا ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی کو واقعی نواز شریف کی کارکردگی سمجھ کر ان کے مخالفین کے الزامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ہر الیکشن میں اپنا وزن نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی شریفانہ رویہ نہیں ہے ، اس کے بجائے انہیں چاہیے کہ وہ عالمی رہنمائوں اور اقتصادی ماہرین کی رائے کو اہمیت نہ دیں بلکہ شیخ رشید ایسے عالمی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کے حامل رہنما کی ان باتوں پر ایمان لائیں جو وہ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں کرتے ہیں اور لوگ ان کے یہ ٹاک شوز کامیڈی پروگراموں کے طور پر دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ اور پھر ہمارے ہاں کوئی اکیلے شیخ رشید تھوڑ ے ہی ہیں۔ ایک سے ایک جوہر قابل پڑا ہے، مثلاً عمر ان خان کیا کسی سے کچھ کم ہیں، گینز بک آف ریکارڈوالے تعصب سے کام لیتے ہیں، ورنہ ابھی تک ان کے دھرنوں کے ریکارڈ کے حوالے سے ان کا نام دنیا کے عجوبوں میں آ سکتا تھا۔ ان کے ایک اور ریکارڈ کو بھی اہمیت نہیں دی گئی جو انہوں نے الزام تراشی اور زبان کے مہذب استعمال سے قائم کیا۔ ان کے یوٹرن کے حوالے سے بھی ان کا نام گینز بک آف ریکارڈ میں آسکتا تھا، ان کے سی وی میں عقل و دانش کی کمی کو ان کے کئی دیگر کارہائے نمایاں جو ابھی مزید سامنے آنا ہیں، سے پورا کیا جاسکتا ہے مگر متعصب مغربی ادارے ہمیں ہمارا حق کہاں دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام اتنے بھولے بھالے اور سیدھے سادے ہیں کہ انہیں عمران خان، شیخ رشید تو چلیں دنیا دار لوگ ہیں، وہ تو شیخ الاسلام علامہ پروفیسر طاہر القادری کی ایمان فروش، معاف کیجئے ایمان افروز تقریروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، حالانکہ وہ حیلوں بہانوں سے انہیں بتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اگر جنت میں جانا ہے تو ان کا دامن پکڑو، مگر بعض گنوار قسم کے لوگ دامن کو گریبان سمجھ کر ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
میں جانتا ہوں پاکستانی عوام اپنے وزیر اعظم کے حوالے سے بہت خوش گمان واقع ہوئے ہیں اور یہ سمجھ کر ہر بار انہیں منتخب کرتے ہیں کہ پاکستان کو منزل مراد تک یہی لیڈر پہنچا سکتا ہے مگر پھر بھی انہیں سمجھانا تو ضروری ہے، یہ لوگ غالباً وہ دس بارہ ٹاک شوز ہی نہیں دیکھتے جن میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے لتے لئے گئے ہوتے ہیں، ہر قسم کا الزام اور ہر وہ گولی جو نشر نہیں ہوسکتی انہیں دی جاتی ہے، مگر نواز شریف ایسے ’’بادشاہ سلامت‘‘ ہیں جو ایک جمہوری رہنما کی طرح یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں، نواز شریف کے دلدادہ خوش فہم عوام اس قوت برداشت کے نمبر نواز شریف کو علیحدہ دیتے ہیں اور مزید دلدادہ ہو جاتے ہیں، حالانکہ انہیں چاہیے کہ وہ عالمی رہنمائوں اور ماہرین اقتصادیات کی رائے کو کوڑے کے ڈبے میں پھینکیں اور ان عظیم تجزیہ نگاروں کی باتوں پر غور کریں۔ یہ وہ نڈراینکر ہیں جن میں کچھ کالم نگار بھی شامل ہیں کہ آج تک کوئی ’’جمہوری سیاسی حکومت‘‘ ان کا ضمیر نہیں خرید سکی۔ اللہ تعالیٰ ان کو ’’غیب‘‘ سے رزق دیتا ہے۔ چنانچہ یہ صاحب کردار لوگ کسی پارلیمنٹ، کسی عدلیہ اور کسی منتخب وزیر اعظم کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اللہ جانے اس کے باوجود ہمارے خوش فہم عوام ان کی باتوں پرکان کیوں نہیں دھرتے اور مارشل لاء کے لئے بے چین نہیں رہتے، جس طرح پاکستان کی محبت سے لبریز دل رکھنے والے یہ میڈیا پرسنز بے چین دکھائی دیتے ہیں!
آخر میں ایک لطیفہ جو آج ہی ایک دوست نے ارسال کیا ہے۔ ایک مرغی کے بچے نے اپنی ’’والدہ‘‘ سے پوچھا کہ سب مائیں اپنے بچوں کا نام رکھتی ہیں، آپ ہمارا نام کیوں نہیں رکھتیں،مرغی نے جواب دیا ’’میرے بچو!ہم مرغیوں کے بچوں کا نام ان کی وفات کے بعد رکھا جاتا ہے مثلاً چکن تکہ، چکن بوٹی اور چکن جلفریزی وغیرہ۔ یہ لطیفہ مجھے اچھا لگاتھا، اس لئے میں نے اسے یہاں درج کردیا ہے ورنہ اس لطیفے کا کالم کے متن سے دورکا بھی کوئی تعلق نہیں!

.
تازہ ترین