• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس ایف آئی آر سے مطمئن ہوئے بغیر گرفتاریاں نہ کرے، جسٹس کھوسہ

لاہور(نمائندہ جنگ، این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ پولیس ایف آئی آر سے مطمئن ہوئے بغیر گرفتاریاں نہ کرے، عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی ہمارا ولین فریضہ ہے لیکن ہمارے نظام کی بد قسمتی ہے کہ یہاں دادا مقدمہ دائر کرتا ہے اور پوتے کو مقدمہ لڑنا پڑتا ہے، مقدمہ صرف اسی صورت میں ملتوی ہو سکتا ہے کہ یا تو وکیل اللہ کو پیارا ہو جائے یا جج فوت ہوجائے اسکے علاوہ مقدمات کو غیر ضروری التواءمیں ڈالنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کی جلد فراہمی کےلئے مقدمات کو غیر ضروری ملتوی کرنے کی روایت ختم کرنا ہوگی، قوانین نہیں، طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے، بطور لاہور ہائی کورٹ جج پہلے دن انکی عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا لیکن انہوںنے فائلز دیکھ کر میرٹ پر فیصلہ کر دیا، اس دن سے ابتک کبھی کوئی وکیل انکی عدالت سے غیر ضروری غیر حاضر نہیں ہوا، جس طرح سی پیک پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا اسی طرح کریمینل جسٹس کے حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ بھی عدلیہ کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔وہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میںپائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے خطاب کر رہے تھے۔سمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ وکلاہڑتال کلچر ختم کر کے عدالتوں کو فنکشنل بنائیں، اگر کبھی احتجاج ناگزیر ہوتو عدالتی اوقات کار کے بعد کیا جا سکتا ہے۔پوری دنیا میں مسلسل ٹرائل کا نظام موجود ہے، کسی بھی مقدمہ کو مخصوص ٹائم فریم میں نمٹا دیا جاتا ہے، ہمیں بھی اپنے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد یاور علی، جسٹس سید کاظم رضا شمسی، جسٹس عبدالسمیع خان، جسٹس صداقت علی خان ، جسٹس چودھری عبد العزیز، رجسٹرار سید خورشید انور رضوری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمان، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے علاوہ اٹک، چنیوٹ، نارووال اور وہاڑی سے جوڈیشل افسران، ممبران پنجاب بار کونسل، ڈسٹرکٹ پولیس افسران، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز، بارایسوسی ایشنوں کے نمائندے، جیل سپرنٹنڈنٹس اور فوجداری وکلابھی موجود تھے۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آرز میں نامزد ملزمان میں کچھ غیر ضروری افراد کے نام بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں جس میں اکثر اوقات مدعی پارٹی کی بد نیتی شامل ہوتی ہے، انہوںنے کہا کہ پولیس تفتیشی ٹیم کو چاہیے کہ جب تک وہ ایف آئی آر کے متن اور تفتیش سے مطمئن نہ ہوں وہ غیر ضروری گرفتاریاں عمل میں نہ لائیں، غیر ضروری گرفتاریاں اور پھر ضمانتیں عدالتوں پر بوجھ بنتی ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس افسران اس میں خصوصی دلچسپی ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل برداشت ہوگی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ان کے والد جب وکالت کی پریکٹس کرتے تھے تو اس دور میں کسی بھی فوجداری مقدمے کا تین دن میں فیصلہ ہو جاتا تھا، موجودہ قوانین کی موجودگی میں بھی فوجداری مقدمات کا جلد فیصلہ ممکن ہے،قوانین نہیں، طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین