• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوج اور عدلیہ کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے پر ن لیگ کی ہچکچاہٹ

اسلام آباد (انصار عباسی) بلا تفریق احتساب کا نظام لانے کا معاملہ تاحال حقیقت سے دور لگ رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نظرثانی شدہ نظام میں فوج اور عدلیہ کو احتساب کے دائرے میں لانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جس وقت اپوزیشن جماعتیں نیب کے قوانین میں نظرثانی کا مطالبہ کر رہی ہیں تا کہ سب کے بلاتفریق احتساب کو یقینی بنایا جا سکے اس وقت ن لیگ کی حکومت ایسا کرنے سے ہچکچا رہی ہے کیونکہ اسے فوج اور عدلیہ کے ’’رد عمل‘‘ کا ڈر ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے قانون میں بہتری لانے کیلئے حال ہی میں قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی رکن پارلیمنٹ نے بلا تفریق احتساب کے خیال کی حمایت کی۔ تاہم، انہیں متنبہ کیا گیا وہ پرخطر علاقے میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے قومی احتساب آرڈیننس مجریہ 1999ء کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی جانے والی 20 رکنی کمیٹی چیئرمین سینیٹ اور پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں سے مشاورت کے بعد تشکیل دی گئی۔ شرائطِ کار کے مطابق، کمیٹی قومی احتساب آرڈیننس مجریہ 1999ء کا جائزہ لینے کےساتھ اس میں ترامیم بھی تجویز کرے گی۔ کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ 3 ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ گزشتہ سال، سینیٹ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ایوان کی کمیٹی کی متفقہ طور پر منظور کردہ قراداد کی منظوری دی تھی جس میں فوج اور عدلیہ سمیت سب کے بلاتفریق احتساب کیلئے نیب قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کمیٹی نے سب کیلئے ایک ہی طرح کے احتساب کی بات کی تھی۔ حال ہی میں، سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے اپنے کھلے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ احتساب کے موجودہ قانون کا مکمل اور مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تاکہ تمام اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مکمل تحقیق کے بعد لکھے گئے خط میں رضا ربانی نے واضح کیا تھا کہ ملک میں انسداد بدعنوانی کی 6 ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 2 وفاقی جبکہ 4 صوبائی ہیں۔ یہ ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام نہیں کر رہی بلکہ ریاست میں عدم مساوات اور ڈھانچہ جاتی عدم توازن پیدا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں حکمران اشرافیہ، سویلین حکمران اشرافیہ، حکمران اشرافیہ کے مددگاروں اور معاونین اور ملک کے عام شہریوں کیلئے الگ الگ قوانین ہیں۔ احتساب کے موجودہ نظام کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب ایجنسیاں سرکاری کنٹرول میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں، ان ایجنسیوں کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، ان ایجنسیوں کے اپنے احتساب کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں جس کی وجہ سے یہ بے لگام انداز سے کام کر رہی ہیں، کرپشن کے خاتمے کیلئے کی جانے والی انفرادی کوششیں مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام ہوچکی ہیں۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کے تناظر میں ’’فیڈرل کمیشن برائے احتساب‘‘ قائم کیا جائےتاکہ کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے اور بلاتفریق احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی کمیشن برائے احتساب بنایا جائے جو ایک اتھارٹی ہوگی اور یہی ایک قانون ہوگا۔ نتیجتاً احتساب کے باقی دیگر فورمز ختم ہو جائیں گے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ انظباطی کارروائی اور دیگر متعلقہ امور، جن کا تعلق عدلیہ، مسلح افواج اور بیورو کریسی سے ہوگا، کے فورمز برقرار رہیں گے لیکن احتساب خصوصی طور پر اس نئے کمیشن کا دائرئہ اختیار ہوگا۔ کمیشن کے تشکیل کے حوالے سے رضا ربانی نے تجویز دی کہ ارکان میں سپریم کورٹ کا ایک حاضر سروس جج، جسے چیف جسٹس پاکستان نامزد کریں گے، مسلح افواج کا ایک رکن جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے کم نہ ہوگا، جس کی نامزدگی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کریں گے، ایک رُکن سول سروسز سے، جس کا گریڈ 22 ہوگا، پولیس اور سول مسلح فورسز سے بھی ایک رُکن، جسے وزارتِ داخلہ نامزد کرے گی، ہر بار ایسوسی ایشن کا ایک رُکن (کل چار)، ہیومن رائٹس کے کارکن، صحافی اور پیشہ ور افراد، جنہیں چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس پاکستان نامزد کریں گے، چار ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق مساوی تعداد میں حکومت اور اپوزیشن بنچوں سے ہوگا، جنہیں چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی نامزد کریں گے۔کمیشن کے چیئرمین کا انتخاب یہ ارکان تین سال کے عرصے کیلئے کریں گے اور چیئرمین کی نامزدگی پارلیمنٹ سے 45 روز کے اندر منظور کرانا ہوگی۔ کمیشن کے دائرئہ اختیارکے حوالے سے رضا ربانی نے تجویز دی کہ وفاقی کمیشن برائے احتساب کا دائرئہ اختیار ان شعبوں میں ہوگا: سرکاری عہدیداروں، سروسز آف پاکستان سے وابستہ ملازمین (چاہے ان کا تعلق وفاق سے ہویا صوبوں سے)، عدلیہ (کرپشن کے متعلق اُمور یہ کمیشن دیکھے گا اور باقی اُمور سپریم جوڈیشل کونسل نمٹائے گی)، مسلح افواج (کرپشن اور اس سے وابستہ اُمور یہ کمیشن نمٹائے گا اور باقی اُمور متعلقہ قوانین کے مطابق نمٹائے جائیں گے)، دیگر افراد (ادارے، کارپوریشن، کمپنیاں وغیرہ)۔ رضا ربانی کی تجویز کے مطابق مکمل آزاد اور خودمختار نیب اس کمیشن کے ماتحت کام کرے گا جبکہ کرپشن کیسز میں ایف آئی اے کا دائرئہ اختیار ختم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے احتساب عدالتیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت کرنے کی تجویز دی تھی۔
تازہ ترین