• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام معاملات میں امریکی مفادات کو ترجیح دینے اور دنیا کو’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ اس دوران امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار منتخب صدر کے خلاف امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے اور پرتشدد ہنگامے جاری رہے۔اس صورت حال کی وجہ واضح طور پر امریکہ کے نئے سربراہ کا انتہاپسندانہ اور مختلف طبقات اورگروپوں کے خلاف نفرت اور تحقیر پر مبنی طرز سیاست ہے جس کا بھرپور مظاہرہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا۔ سیاستداں بسا اوقات انتخابی مہم میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے اور اسے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد جیتنے والے بالعموم کشادہ دلی سے کام لیتے اور ہارنے والے عوام کے فیصلے کو خوش دلی تسلیم کرلیتے ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔انتخابی نتائج میں اپنی فتح یابی کے بعد سے حلف اٹھانے تک بھی انہوں نے بڑی حد تک انتخابی مہم والے طور طریقوں کو اپنائے رکھا اور گزشتہ روز سب سے بڑی عالمی طاقت کی سربراہی کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد بھی انہوں نے جو خطاب کیا اس میں ان حوالوں سے کسی واضح تبدیلی کا ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ اس امریکہ کے سربراہ کے بجائے جو کئی عشروں سے سیاست، معیشت،تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عالمی انسانی برادری کی قیادت کرتا چلا آرہا ہے صرف امریکہ نامی ایک ملک اور اس کے مفادات کے علم بردار نظر آتے ہیں۔ تارکین وطن خصوصاً مشرق وسطیٰ میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کی جاری جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے بارے میں ان کے سنگ دلانہ موقف نے خود مغربی ملکوں کے عوام اور حکومتوں میں ان کے بارے میں منفی تاثرات کو فروغ دیا ہے۔ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف سلامتی کونسل میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے ویٹو نہ کیے جانے کی بناء پر منظور ہونے والی قرارداد کی مذمت کرکے ، انہوں نے اس اندیشے کو تقویت دی ہے کہ تنازع فلسطین کو حل کرنے کے بجائے ان کے دور میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔مسلمانوں کے بارے میں بالعموم وہ جس طرح کے خیالات ظاہر کرتے رہے ہیں ان کی بناء پر امریکی مسلمان خوف کا شکار ہیں ۔ جبکہ دہشت گردی کے عالمی مسئلے کو اسلامی دہشت گردی کا نام دے کر انہوں نے کھلی بے انصافی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ خود مسلم ممالک ہیں اور اس کی وجہ فی الحقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غیرمنصفانہ اور مفاد پرستانہ پالیسیاں ہیں۔ عراق اور افغانستان پر امریکی فوج کشی کو خود صدر ٹرمپ اپنے ایک حالیہ بیان میں غلط قرار دے چکے ہیں جبکہ فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کا سات عشروں سے اپنے حق سے محروم رہنا بھی امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے خود غرضانہ رویوں کا نتیجہ اور دہشت گردی کے فروغ کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ کوئی مسلمان ریاست اور حکومت دہشت گردی کی حامی نہیں لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کا خاتمہ محروم لوگوں کو ان کا حق دیے بغیر نہیں ہوسکتا۔صدر ٹرمپ کے خطاب اور متوقع پالیسیوں سے چین اور بھارت سمیت کئی ملک سخت پریشان ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کی برآمدات بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔ یہ حالات دنیا میں امن کے فروغ کے بجائے کشیدگی اور کشمکش کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں اور دنیا ایک نئی عالمی جنگ سے دوچار ہوسکتی ہے جس کی تباہ کاریوں کا تصور بھی محال ہے۔ لہٰذا دنیا کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ نفرت اور انتہاپسندی کو چھوڑ کر سنجیدگی، بردباری، تدبر اور اعتدال و توازن کا راستہ اپنائیں ۔ بین الاقوامی تنازعات کو حل کریں اور محض امریکہ کے بجائے پوری عالمی برادری کے مفادات کے محافظ بنیں کہ یہ راستہ خود امریکہ کے بھی بہتر مفاد میں ہے۔


.
تازہ ترین