• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے اور زندگی کے طویل سفر میں مشاہدات، تجربات اور حادثات ذہن پر اپنے نقوش ثبت کرتے رہتے ہیں۔ قوموں کی مانند انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ انسان تجربات سے بہت کم سیکھتا ہے اور عام طور پر ایک ہی جیسی غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ بعض غلطیاں اتنی معصوم ہوتی ہیں کہ زندگی کا حسن بن جاتی ہیں جبکہ بعض اتنی سنگین ہوتی ہیں کہ زندگی کا روگ بن جاتی ہیں۔ غلطیاں انسانی زندگی کا مقدر ہیں یعنی ناگزیر حصہ ہیں مگر اللہ پاک روگ بننے والی غلطی سے محفوظ رکھیں تو یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہوتا ہے۔ اس سے بڑھاپا سنورتا اور زندگی کا آخری حصہ سکون سے گزرتا ہے ورنہ زندگی کا مقدر ہے گزرنا اور وہ بہرحال گزر جاتی ہے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی، کہنا کچھ اور چاہتا تھا۔
زندگی کے مشاہدات و تجربات حافظے کے خزانے کو یادوں کے قیمتی موتیوں سے بھرتے رہتے ہیں۔ یاد حسین ہو یا تلخ بہرحال یاد ہی ہوتی ہے۔ عام طور پر یادوں کا یہ خزانہ جوانی گزرنے کے بعد کھلتا ہے جب انسان قدرے فارغ ہوتا ہے اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے۔ ماضی کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ماضی ہمیشہ حسین اور اچھا لگتا ہے۔ اسی لئے مجھے شاعر کا وہ مصرع کبھی سمجھ میں نہیں آیا جو زبان زد عام ہے۔ مصرع ہے؎ ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘۔ میرے نزدیک ماضی کی یادیں زندگی کا قیمتی اور حسین خزانہ ہوتی ہیں نہ کہ عذاب۔ یہ بھی یادوں کا حسن اور جادو ہوتا ہے کہ بعض اوقات کسی کے ذکر یا واقعے سے یادوں کا گلشن مہک اٹھتا ہے اور بہت سی یادیں ایک دم ذہن پرحملہ آور ہو جاتی ہیں۔
چند روز قبل میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہوا۔ متحدہ ہندوستان کے نامور گلوکار اور لیجنڈ سیگل یا سہگل کی برسی منائی گئی۔ ہماری نوجوان نسلیں اس نام سے واقف نہیں ہوںگی کیونکہ سہگل پکے راگ راگنے والا گلوکار تھا، اس کی آواز میں جادو تھا اور وہ ہندوستان کے میوزک کی تاریخ میں اپنا نقش دوام چھوڑ گیا۔ یہ باتیں میرے لئے بھی اجنبی تھیں کیونکہ قیام پاکستان کے بعدجوان ہونے والی نسل پکے راگ اور کلاسیکل میوزک کی بجائے لتا، نور جہاں، رفیع، مہدی حسن اور ان کے ہم عصروں کے نغمے سنتے جوانی کے گلستان میں داخل ہوئی۔ اگرچہ میرا تعلق بھی اس نسل سے ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ میرا ایک تعلق، ایک رشتہ اور ایک یاد سہگل سے وابستہ ہے اگرچہ میں نے نہ کبھی سہگل کو دیکھا اور شاید نہ ہی کبھی اسے سنا۔ البتہ ہمارے بزرگ گراموفون پر سہگل کے ریکارڈ لگا کر خوب سر دھنتے اور کیف و مستی میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ گراموفون ’’باجے‘‘ کے ریکارڈوں کو دیہات میں ’’توے‘‘ کہا جاتا تھا اور گراموفون کو باجہ۔
یادوں کی وابستگی اور اچانک یادوں کے گلابوں کا مہک اٹھنا زندگی کا حسین پہلو ہے۔ چند روزقبل سہگل کی برسی منائی گئی تو مجھے یاد آیا کہ میری یادوں کے خزانے میں ایک یادسہگل کے اردگرد بھی گھومتی ہے۔ اگرچہ ہم دونوں کے درمیان دہائیوں کے فاصلے حائل ہیں۔ اسکول اور کالج کے ہوسٹل میں رہنا بھی ایک حسین یاد اور سبق آموز تجربہ ہوتا ہے۔ یادش بخیر ایک ناول نگار نے اپنے ناول کو علی گڑھ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں رہائش پذیر طلبہ کے نام ان الفاظ میں موسوم کیا ہے ’’ان یتیم بچوں کے نام جن کے والدین بقید حیات ہیں‘‘۔ یہ بھی اپنے اپنے تجربے کی بات ہے کیونکہ ہاسٹل میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود مجھے کبھی یتیمی کا احساس نہیں ہوا البتہ ہوسٹل میں رہنے کے سبب کچھ عادتیں اتنی پکی ہوگئی تھیں کہ اگر شادی نہ ہوتی شاید وہ قبر تک میرے ساتھ رہتیں۔ مثلاً میری عادت تھی کمرے سے نکلتے ہوئے بتی بجھانا، یہ عادت شادی نے بڑی جدوجہد کر کے چھڑائی کیونکہ میں بیڈروم سے نکلتے ہی لاشعوری طور پر بتی بجھا دیتا تو کمرے سے آواز آتی کہ میں کمرے میں موجودہوں۔ یہ آواز دلہن کی ہوتی جو شروع شروع میں بڑی ’’نغمانہ‘‘ یعنی میوزیکل ہوتی ہے اور بعد میں اتنی ہی آمرانہ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب میں ہوسٹل کی تربیت کے مطابق اپنے بستر کی سلوٹیں نکال کر رضائی اور کمبل کی تہیں لگاتا تو یہ شکایت سننے کو ملتی کہ مجھے بھی خدمت کا موقع دیجئے۔ یہ الگ بات کہ بالآخر زندگی کے کارزار میں ہوسٹل کی تربیت ہی کام آئی اور بیوی کے خدمتی جذبے بچوں کے شور تلے دب کر رہ گئے۔
ذکر ہورہاتھا سہگل سے وابستہ یاد کا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میری زندگی کے نہایت حسین سال گزرے اور میں کئی برس تک کالج کے ہوسٹل میں مقیم رہا۔ اس دوران ہوسٹل کے حجام اور دوسرے ملازمین سے کچھ کچھ دوستی ہوگئی۔ ان ملازمین میں ہوسٹل کا حجام سینئر ترین تھا اور ہوسٹل کی چلتی پھرتی بلکہ زندہ تاریخ تھا۔ بزرگ حجام مجھ پر خاصا مہربان تھا اور بال تراشتے ہوئے یا کندھے دباتے ہوئے ہوسٹل کی پرانی یادیں تازہ کیا کرتا تھا۔ایک روز سر پر مالش کرنے کے بعد کندھے دباتے ہوئے بزرگ حجام نے مجھے بتایا کہ آپ جس کمرے میں مقیم ہیں اس میں تقسیم ہند سے پہلے مشہور گلوکار سہگل رہا کرتا تھا۔ میں سہگل کا نام سن کر چونکا اور دلچسپی کا اظہار کیا تو حجام نے بتایا کہ سر جی سہگل کلاسوں میں کم کم ہی جاتا تھا۔ وہ اکثر نہانے کے چکر میں غسل خانے میں جاتا اور پانی کی ٹونٹی کھول کر گانے گاتا رہتا۔ غسل خانوں کی قطار حجام کی دکان سے ملحق تھی چنانچہ وہ طویل عرصے تک سہگل کی سریلی آواز سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس دور میں پورے ہندوستان اور دوسرے کئی ممالک سے لائق ترین بچے گورنمنٹ کالج لاہور میں آتے تھے کیونکہ داخلہ میرٹ پر نمبروں کے مطابق ہوتا تھا اورکالج کے اسٹاف میں کیمبرج آکسفورڈ کے اساتذہ بھی شامل ہوتے تھے جن میں علامہ اقبال کا استاد پروفیسر آرنلڈ بھی شامل تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ سہگل کو ہوسٹل میں آئے کوئی ایک سال گزرا تھا کہ ایک روز اس کا والد یہاں آیا۔ وہ سہگل کے ایک دو پروفیسروں سے ملا اور پھر ہوسٹل میں آکر پوچھ گچھ کرنے لگا۔ حجام کے بقول سہگل کے والد نے اس سےپوچھا کہ یہ جوان کالج بھی جاتا ہے یا نہیں۔ اس سوال کے جواب میں حجام نے سچ سچ بتا دیا کہ سہگل ’’نہانے کا نلکا‘‘ کھول کر گانے کا ریاض کرتا رہتا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد سہگل کا والد آیا اوراسے ہوسٹل سے رہائی دلوا کر گھر لے گیا۔ وہ سہگل ہندوستان کا نامور گلوکار بنا اور ہندوستانی میوزک ہسٹری میں نقش دوام چھوڑ گیا۔ کیا یہ سچ ہے کہ جنہوں نے زندگی میں نام پیدا کرنا ہوتا ہے اس کے آثار اوائل عمری میں ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں؟



.
تازہ ترین