• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک سوال آج کل بہت گردش کررہا ہے کہ کیا حکمرانوںکو کاروبار کی اجازت ہوتی ہے یا نہیں ۔دونوں طرف سے اس سلسلے میں بڑے بڑے دلائل لائے جارہے ہیں ۔ مخالفین کا کہنا ہےکہ بے شک وزیر اعظم پاکستان سرکاری خرانے سےتنخواہ نہیں لیتے لیکن آئینی اور قانونی طور پر انہیں یہ تنخواہ لینی چا ہئے ۔ چاہے وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ لیں تنخواہ کی مد میں ۔ وزیر اعظم کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل آئین میں درج ہے ۔ وزیر اعظم کے عہدے کے ساتھ تنخواہ اس لئے رکھی گئی ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد کسی کے پاس کچھ اورکرنے کا جواز نہ رہے ۔یعنی حکمرانوںکو کاروبار کرنے کی اخلاقی قانونی اور آئینی اجازت نہیں ہے ۔اخلاقی طور پر اس لئے کہ ایک شخص جس نے کاروبار مملکت چلانا ہو ۔اس کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ سکتا ہے کہ کاروبار کرتا پھرے اور اگر وہ حکمران بننے سے پہلے ایک کاروباری آدمی ہے تو اسے اپنا کاروبا رختم کردینا ہوتا ہے کیونکہ اپنے عہدے کے سبب اس کاروبار کے پھولنے پھلنے کے اسباب بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا تھا کہ اگر شہر میں خلیفہ کی دکان ہوئی تو سارا شہر اُسی سے سوداخریدے گا اور انہوں نے دکان بند کردی اوران کی باقاعدہ تنخواہ مقرر کی گئی تھی۔ یہ دنیا میں کسی حکمران کی پہلی تنخواہ تھی ۔اس وقت تقریباً ترقی یافتہ ممالک کے تمام حکمران تنخواہیں لیتے ہیں ۔یہ تو ہوئی کاروبار کی اخلاقی طور پر ممانعت کہ ملک کا حکمران دورانِ اقتدار کاروبار نہیں کر سکتا ۔ اب آتے ہیں قانونی حیثیت کی طرف۔وزیر اعظم بنیادی طور پر ریاست کا ملازم ہوتا ہے ۔اس کے کچھ فرائض منصبی ہوتے ہیں ۔ کچھ تنخواہ ہوتی ہے ۔کچھ مراعات ہوتی ہیں۔ کوئی شخص جب ملازمت احتیار کرلیتا ہے تو یہ اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ طے شدہ سرکاری تنخواہ لے یا نہ لے۔ لیکن اسے اپنے فرائض منصبی پوری طرح ادا کرنے ہوتے ہیں ۔وہ کوئی اور کاروبار نہیں کر سکتا۔اسے کاروبارِ سلطنت ہی چلانا ہوتا ہے ۔حکمران آئینی طور پر بھی پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے منصب کے ساتھ پوری طرح انصاف کرے اور کوئی ایسا کام نہیں کرےجس سے اس کےفرائض منصبی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو ۔ہندی کا یہ محاورہ بھی آج کل لوگوں کو بہت یاد آرہا ہے کہ ’’راجہ بیوپاری پرجا بھکاری‘‘۔ ا یسی تک بندیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں
رکھتے ہیں سب خدمت گار۔گھر میں دولت کے انبار
سب سے اچھا کاروبار ۔ کاروبارِ حکومت یار
ان کے برعکس وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حلیف یہ کہتے ہیں کہ کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو حکمران کو کاروبار کرنے سےروکتا ہو ۔حکمرانوںکاکا روبار کرنا قانونی اور آئینی طور پر جائز ہے۔وزیر اعظم سرکاری خزانے سے تنخواہ نہیں لیتے اس لئے اخلاقی طور پر بھی انہیں کاروبار کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ان کی اس بات میں بھی بہت لاجک ہے کہ اگر ایک شخص پہلے سے ایک فیکٹری کا مالک ہو تو کیا حکمران بننے کے بعد وہ اپنی فیکٹری فروخت کردے۔پھر حکمران کوئی چوبیس گھنٹوں کا ملازم تھوڑی ہوتا ہے کہ اپنے سرکاری معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے بزنس کو نہیں دیکھ سکتا۔جہاں تک اس بات کی قانونی حیثیت ہے توسرکاری ملازمین کےلئے جو قوانین ہوتے ہیں وہ اسمبلی کے ممبران یا وزیروں پر لاگو نہیں ہوتے ۔ابھی ٹرمپ جو امریکہ کا صدر بنا ہے تو اس نے اپناکاروبار بند تو نہیں کیا اپنے بچوں کے حوالے کیا ہے مگر ہے ابھی تک اس کے اپنے نام ۔جہاں تک اسلام کی بات ہے تو کاروبار کرنا سنت ہے اللہ کے رسول ﷺخود تجارت کیا کرتے تھے ۔آپﷺکا فرمان ہے کہ”کسی نے بھی اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے عمل سے زیادہ بہتر طعام نہیں کھایا، اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔یہ تو خیر دونوں طرف کے دلائل تھے ۔حکمرانوں کے کاروبار سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے جس کا اس موضوع سے کوئی واسطہ نہیں ۔یہ اُن دوستوں کےلئے ایک مشورہ ہے جو حکمرانوں سے مل کر کاروبار کرنے کے خواب دیکھتے ہیں ۔دراصل یہ واقعہ جنگل کےحکمران کا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لومڑی بھیڑیا اور شیرنے مل کر کاروبار کرنے کا پروگرام بنایا ۔ یہ کاروبار شکار کرنے کا تھا ۔ تینوں مل کر شکار کےلئے نکلے ۔انہوں نے ایک نیل گائےایک جنگلی بکرےاورایک خرگوش کا شکار کیا۔اب کاروبار میں منافع کی تقسیم کا وقت آ گیا تھا ۔شیر نے سب سے پہلے بھیڑئیے کو بلایا اور کہا کہ تقسیم کس طرح ہونی چاہئے۔
بھیڑئیے نے کہا ۔نیل گائے بڑی ہے سو وہ آپ کا حصہ ہے۔جنگلی بکرا درمیانے سائز کا ہے اس لئے وہ مجھے دے دیا جائے اورخرگوش لومڑی کو ملنا چاہئے ۔ شیر نے بھیڑئیے کو قریب بلا کر اسےزور سے ایک پنجہ مارا اور وہ وہیں ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد شیرنے لومڑی کو تقسیم کرنے کو کہا۔ لومڑی بھیڑے کا انجام دیکھ چکی تھی سو اس نے با ادب ہو کر کہا جناب تقسیم کیسی یہ نیل گائے آپ کے صبح کے ناشتے کےلئے ہے ۔ یہ جنگلی بکرا دوپہر کے لنچ کےلئے اور خرگوش کے ساتھ رات کو ڈنر فرما لیجئے گا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں پر تجارت کی پابندی تو نہیں لگائی جاسکتی مگر ان کی تجارت عوام الناس کےلئے منافع بخش نہیں ہو سکتی ۔اور حکمرانوں کو عوام کےلئے منافع بخش ثابت ہونا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ بقا اسی کو ہے جو دوسروں کےلئے فائدہ مند ہو۔



.
تازہ ترین