• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان اور پاکستان ۔ کیا ہورہا ہے ،کیا کیا جائے؟

(پانچویں قسط)
پاکستان کیا کرے
(1) پاکستان افغانستان کو چین ، سعودی عرب اور ترکی کی طرح بھائی یا دوست بنانے کا خواب دیکھنا اور اس کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دے لیکن اس کے بارے میں یہ خدشہ بھی ذہن سے نکال دے کہ کبھی وہ ہندوستان کی طرح کا دشمن بن جائے گا۔ پاکستان افغانستان کو اپنا فرسٹ کزن (تربور) سمجھے ۔ جو کبھی پوری طرح پاکستان کی لائن پر بھی نہیں آئے گا ۔ وقتاً فوقتاً چھیڑخانی بھی کرے گا ۔ تنگ کرنے کے لئے پاکستان کے دشمنوں کو بھی آنکھ مارتا رہے گا لیکن وسیع تناظر میں وہ کبھی پاکستان کا دشمن بنے گا نہ کبھی اس کے ساتھ جنگ کرے گا۔ بڑا اور خوشحال کزن ہونے کے ناطے پاکستان کو، افغانستان کے ساتھ صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہئے ۔
(2) افغانستان کی حکومت اگر کسی حوالے سے پوری طرح پاکستان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو اسے اس کی مجبوریوں اور مختلف لابیوں کے اثرورسوخ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے اور اس طرح کا ردعمل نہیں دکھانا چاہئے جس طرح کہ کسی منتظم ملک مثلا بھارت یا ایران کے خلاف دکھایاجاتا ہے۔
(3) پاکستان افغانستان کے لئے ایک خصوصی ایلچی کا تقرر کرے ۔ وہ یا تو سابق جنرل ہونا چاہئے یا پھر سیکورٹی اداروں کی گڈ بکس میںشامل کوئی سویلین ہوناچاہئے ۔ وہ پاکستان کے اندر افغانستان سے متعلق وزیراعظم ہائوس ، جی ایچ کیو ،دفتر خارجہ ، آئی ایس آئی اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ کوآرڈنیشن کو بہتر بنائے تاکہ سب ادارے ایک ہی سمت میں افغان پالیسی چلائیں ۔ خصوصی ایلچی کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ تمام اداروں کا اِن پٹ لے کر ان کے ایک ہی سمت میں کام کو یقینی بنائے۔ہاں البتہ بطور اسٹرٹیجی یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ادارے کو ایک سمت میں کام کا کہے اور دوسرے کو دوسرے میں، لیکن ریاستی پالیسی کی سمت ایک ہونی چاہئے ۔ افغانستان کو بھی قول اور عمل سے یہ یقین دلایا جائے کہ خصوصی ایلچی کا یہ دفتر ہی خودمختار اور فیصلہ ساز دفتر ہے ، اسی طرح دیگر وزارتوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اس کی ہدایات پر عمل کریں ۔
(4) افغان حکومت کو سرکاری اور ذاتی سطح پر خاموش ڈپلومیسی کے ذریعے یہ یقین دلا دیا جائے کہ پاکستان طالبان کے معاملے پر پورے خلوص کے ساتھ ڈیلیور کرے گا۔ اس کے جواب میں اس سے یہ گارنٹی لی جائے کہ وہ پاکستانی مطالبات پورے کرے گا۔ پورا روڈ میپ بنا کر اسٹیپ بائی اسٹیپ (Step by Step) اقدامات کا تعین کیا جائے کہ پاکستان نے کیا کرنا ہے اور افغانستان نے کیا کرنا ہے ۔ اس معاملے میں اگر چین گارنٹر بن جائے تو بہت بہتر ہوگا لیکن یہ سارا کام رازداری سے ہونا چاہئے اور قول کی بجائے عمل سے کام لینا چاہئے ۔
(5) ’’را‘‘ کی سرگرمیوں پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ طالبان کے معاملے پر بارگین کی صورت میں افغانستان حکومت سے یہ بھی گارنٹی لی جائے کہ وہ بارڈر مینجمنٹ کے معاملے میں عملی تعاون کرے گی اور افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائے گی ۔دونوں معاملات پر عملی اقدامات کے لئے روڈ میپ بننا چاہئے۔
ہارڈ پراکسیز (Hard Proxies) کی بجائے سافٹ پراکسیز (Soft Proxies) کی پالیسی:
(1) پاکستان کو پورے خلوص کے ساتھ ان گروپوں کی مدد یا سرپرستی مکمل روک دینی چاہئے جو مسلح مزاحمت کرتے ہیں ۔ ان پراکسیز پر خرچ ہونے والے وسائل اور توجہ افغانستان کی سیاسی قوتوں پر صرف کردینی چاہئے ۔ حزب اسلامی کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے اور ان کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنا چاہئے ۔ ۔ افغان حکومت کے ساتھ حکمت یار کی مصالحت کے عمل کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ لیکن کسی قوت کو صفر سے اٹھا کر افغانستان کا حکمران بنانے کی بجائے جو بھی سیاسی قوت وہاں پر ابھرے اس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کسی بھی افغان لیڈر یا گروہ کے ماضی کی بنیاد پر اس کے ساتھ دوستی یا دشمنی نہیں ہونی چاہئے ۔ ہر افغان لیڈر اور گروہ کو ایک جیسا سمجھ کر انہیں یہ باور کرادینا چاہئے کہ پاکستان ان کا دوست ہے ۔ افغانستان کے سیاسی دھڑے کسی بھی وقت دوست اور دشمن بدل سکتے ہیں ۔ اگر پاکستان ان کے مخالف دھڑے کی سرپرستی نہ کرے تو اسے دوست بنانا پاکستان جیسے ملک کےلئے کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہئے۔
(2) افغان مہاجرین سے بہتر سافٹ پراکسی پاکستان کے لئے کوئی نہیں ۔ جب تک وہ پاکستان میں ہیں ، ان کے بااثر افراد کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہونے چاہئیں اور ان کی باعزت واپسی کی راہ ہموار کرنی چاہئے ۔ جس افغان کے عزیز و اقارب پاکستان میں مقیم ہوں، وہ کبھی پاکستان کے خلاف نہیں جاسکے گا بشرطیکہ اس عامل کی طرف منظم انداز میں توجہ مبذول کی جائے۔(3) افغان میڈیااس وقت ناقابل بیان حد تک امریکہ‘ ایران اور ہندوستان کے زیراثرہے جبکہ کوئی ایک الیکٹرانک چینل‘ انٹرنیٹ ویب سائٹ یا پھر اخبار بھی ایسا نہیں کہ جسے پروپاکستان کہا جائے ۔ افغانستان میں رائے عامہ کے حوالے سے سوشل میڈیا اس وقت نہایت موثر کردار ادا کررہا ہے ۔اس کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ہندوستان اور ایران افغان چینلز کو اپنے ڈرامے پشتو اور دری زبان میں ڈب کرکے مفت فراہم کررہے ہیں ۔ پاکستان ٹی وی کے پاس بڑی تعداد میں پشتو ڈرامے موجود ہیں ۔ پشاور اور کوئٹہ کے پختون اداکار اور فنکار افغانوں میں اسی طرح مقبول ہیں جس طرح کہ پاکستان کے پختون علاقوں میں ہیں ۔ پی ٹی وی سے تمام پشتو ڈرامے افغان چینلز کو مفت فراہم کئے جائیں ۔ وہ خوشی سے اس کو دکھائیں گے ۔ اسی طرح پشتو اور دری زبانوں میں افغانستان کے تناظر میں فلمیں اور ڈرامے بنانا بھی بہت ضروری ہے ۔ پی ٹی وی ورلڈ پر پشتو پروگراموں اور دری زبانوں میں نیوز ، کرنٹ افیئر اور انٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کا بھی آغاز ہونا چاہئے لیکن یہاں پر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کا معیار روایتی سرکاری چینلز کی طرح نہیں بلکہ عالمی معیار کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ افغان ویورز کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں۔
(4) افغانستان میں پاکستان کے پشتون سنگرز مثلاً سردار علی ٹکر، ہارون باچا،رحیم شاہ، زیک آفریدی، کرن خان ، خیال محمد ، سردار یوسفزئی، ہمایوں خان ، وغیرہ نہایت مقبول ہیں ۔ بعض اوقات افغانستان میں ان کی مارکیٹ ، خیبرپختونخوا سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ۔ اسی طرح بعض افغان سنگرز مثلاً نغمہ ، بریالی صمدی ، ناشناس وغیرہ پاکستان کے پختونوں میں مقبول ہیں ۔ بعض افغانی فنکاروں ، گلوکاروں یا سنگرز نے پاکستان میں اتنا نام کمایا ہے کہ وہ عام طور پر پاکستانی تصور کئے جاتے ہیں ۔ ان اور ان جیسے دیگر لوگوں کو منظم انداز میں پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہئے ۔
(5) افغانستان میں پاکستانی عسکری اداروں کے سابق اہلکاروں کی رائے کو بھی پاکستانی فوج کی رائے سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کو پاکستانی میڈیا میں افغانستان کے خلاف سخت زبان بولنے سے یا تو روک دینا چاہئے یا تو پھر ان کو منظم انداز میں لائن ملنی چاہئے تاکہ وہ نفرتوں کو مزید ہوا نہ دیں ۔
(6) تجارت سے بڑھ کر پاکستان کے پاس افغانستان میں اثرورسوخ کے لئے کوئی ہتھیار نہیں ۔ ابھی تک جو تجارت ہورہی ہے ، اس میں پاکستان کے حکومتی اداروں کا کوئی خاص کردار نہیں ۔ ان کی طرف سے رکاوٹیں تو بہت ڈالی جارہی ہیں لیکن سہولت کوئی خاص نہیں ۔ گزشتہ چند ماہ سے تو ایسی پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں کہ افغانستان کا انحصار روز بروز پاکستان پر کم اور ایران پر بڑھتا جارہا ہے ۔ افغان تاجروں یا افغانستان کو مال لے جانے والے پاکستانی تاجروں کو کراچی سے لے کر طورخم تک ہر جگہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بعض جگہ ان کی تذلیل ہوتی ہے اور بعض جگہ ان سے رشوتیں لی جاتی ہیں ۔ ایران کی طرز پر افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لئے کم از کم اگلے دس سال تک خصوصی رعایتوں سے کام لینا چاہئے ۔
(7) جس افغان کا پاکستان میں کسی بھی وجہ سے آنا جانا رہتا ہے ، وہ چاہتے ہوئے بھی ایک خاص حد سے زیادہ پاکستان کے خلاف نہیں جاسکتا ۔ تعلیم اور علاج دو ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں افغان پاکستان پر انحصار کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہندوستان‘ افغانوں کے لئے یہ دونوں ضروریات آسان بنارہا ہے لیکن پاکستان کی طرف یہ مشکل ہوتی جارہی ہیں ۔ اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ویزے کی شرط برقرار رکھنی چاہئے لیکن کابل اور دوسرے افغان شہروں میں پاکستانی قونصل خانوں پر ویزے کی سہولت آسان بنادینی چاہئے جو اس وقت نہایت مشکل اور تکلیف دہ ہے ۔ اسی طرح مہاجرین کو خصوصی کمپیوٹرائزڈ کارڈ پر آنے جانے کی سہولت ان کی مکمل واپسی تک دستیاب رہنی چاہئے۔
(8) افغانستان سے متعلق ابھی تک دو قسم کے سیاسی رہنمائوں کو رول دیا جاتا رہا ۔ ایک مذہبی جماعتوں کے قائدین جو طالبان کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور افغانستان میں وہ نفرت کے نشان بنے ہوئے ہیں یا پھر وہ قوم پرست جو افغان حکومت کے نہایت قریب سمجھے جاتے ہیں اور بعض ان سے تنخواہ تک لیتے رہے ۔ یہ دونوں قسم کے لوگ فائدے کا باعث تو نہیں بن سکتے بلکہ نقصان کا موجب بنتے ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اول الذکر پر افغان اور افغان حکومت اعتماد نہیں کرتی اور ثانی الذکر پر پاکستان میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں آفتاب شیرپائو جیسے وہ لوگ زیادہ موثر ہوسکتے ہیں کہ جن کو افغانستان میں بھی عزت سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح کسی ایک انتہا یا دوسرے انتہا پر کھڑے سول سوسائٹی کے رہنمائوں اور دانشوروں کی بجائے وہ لوگ زیادہ موثر ہوسکتے ہیں جو اعتدال کی راہ پر قائم رہے اور جو دونوں جانب قابل احترام سمجھے جاتے ہیں ۔
میں اپنی سوچ کا خلاصہ بیان کروں تو وہ کچھ یوں ہے کہ ماضی میں افغانستان سے متعلق پاکستان کی پالیسی ویسی رہی ہے جیسی امریکہ کی پاکستان سے متعلق تھی ‘ جس کے جواب میں افغانستان بھی ویسا ہی جواب دے رہا ہے جیسا کہ پاکستانی امریکہ کودیتے ہیں ۔ میری گزارش یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان سے متعلق ویسی پالیسی اپنانی چاہئے جیسی کہ چین کی پاکستان سے متعلق ہے ۔ اگر پاکستان نے ایسا کیا تو مجھے یقین ہے کہ افغانستان کی طرف سے بھی پاکستان کو وہی رسپانس ملے گا جو چین کو پاکستان سے مل رہا ہے۔



.
تازہ ترین