• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام بشمول محدود مگر متوسط دانشور طبقے نے بھی کم ہی سمجھا کہ جب وزیراعظم گیلانی نے حلف کے برعکس اپنی موجود اور مرحوم قیادت کی وفا میں ان پر کرپشن کے الزامات کے مقدمے میں عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر وزارت عظمیٰ کا عہدہ گنوایا اور 5 سال کے لئے نااہل ہونے کی سزا بھی پائی تو یہ جاری عوام دشمن نظام (اسٹیٹس کو) میں ایک بڑی دراڑ تھی۔ اس سے قبل طاقتور صدر مملکت کو چارٹر آف ڈیموکریسی سے بے وفائی کرتے ہوئے ڈوگر ہ فورس کے تحفظ میں ناکامی بھی اسٹیٹس کو پر بڑی ضرب تھی، پھر اسٹیٹس کو کی تشکیل میں غالب کردار ادا کرنے والی ہر دو سیاسی خاندانی قوتوں کے مقابل عمران خان کی تحریک انصاف کا تیسری بڑی پارلیمانی قوت بننا عوام کی جزوی کامیابی اور فیملی برانڈ سیاست کی بڑی شکست تھی۔ بحالی جمہوریت (2008) کے بعد جاری سیاسی عمل کے متوازی وفاق اور سندھ میں پی پی کے بدترین طرز حکومت نے ہی اسے عوام خصوصاً پنجاب اور خیبرپختونخوا سے دور کرنا شروع کردیا تھا، لیکن واضح اشاروں کے باوجود پی پی کی مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے کرپشن، نااہلی اور انتظامی دھماچوکڑی کا بازار گرم رکھا۔ الیکشن 13میں پھر سندھ میں حکومت ملنے کے بعد جس طرح کراچی اور اندرون سندھ عوام کی انتہائی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بدترین گورننس کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کے بعد پی پی بطور قومی جماعت اب آخری سانس ہی لے رہی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ آصف زرداری کا انتہا کا غیر سیاسی (جسے وہ سیاسی سمجھتے رہے) جذبہ مفاہمت یا مصالحت ، پی پی کو بذریعہ جواں سال قیادت سنبھالنے کے (شاید) آخری موقع کو بھی کھا گیا۔ زرداری قیادت نے پسر مکتب کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگنے کی جو کوشش کی وہ پارٹی کی مطلوب فوری ضرورتوں سے متصادم ہوگئی، لیکن نوخیز قیادت کچھ کرسکی نہ انکلز۔ یوں پرجوش بلاول زرداری کے حالیہ دورے میں بھٹو کی پی پی لاہور اورفیصل آباد میں زمین سے لگ گئی جبکہ دونوں ہی شہر اس کے عروج پر پارٹی کی طاقت کا مرکز و محور تھے۔ پاکستانی سیاست کو خاندانی اجارہ داری میں لپیٹ دینے والی اسٹیٹس کو کی ایک بڑی طاقت کا ہوتا یہ انجام، اندھی عقیدت سے تراشے گئے عوام دشمن نظام کی توڑ پھوڑ کا عمل ہی تو ہے۔
دوسری جانب پاناما لیکس کی بے نقاب حقائق اور اس کے متوازی ن لیگی مرکز و صوبے کی بدستور اسٹیٹس کو پر ہی کاربند حکومتیں نظام بد میں شکست و ریخت کا پتہ نہیں دے رہیں؟ قومی میڈیاہر دو لیگی حکومتوں کے اقدامات اور فیصلوں (ان حکومتوں کی گورننس میں پالیسی سازی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں) کو بہت متعلقہ سوالات اور دلائل کے ساتھ متنازع اور مشکوک قرار دے رہا ہے، اس کے جواب میں انتخابی مہمات طرز کی اشتہار بازی تو بہت واضح ہے، لیکن عوام کو مطمئن کرنے والے جوابات اور وضاحت پر یہ حکومتیں خاموش ہیں۔ ایک بار پھر ’’ترقی‘‘ کے ثمر حکمراں خود اور ان کے نااہل اور عوام کی خدمت سے عاری وزراء اور وفادار درباری ہی سمیٹتے نظر آرہے ہیں۔ بلوچستان کی ن لیگی حکومت کو تو سنبھلتی صورتحال اور ماضی قریب کی بے حد بگڑی صورتحال کا الائونس دیا جاسکتا ہے کہ وہاں حکومت کا قائم ہو کر چل پڑنا، اداروں کی معمول کی طرف واپسی ہی بڑی کامیابی ہے، لیکن اس میں بڑا حصہ فوج کے منظم اور پرامن آپریشن کا ہے جس نے بلوچستان میں مشرف حکومت کے ڈیزاسٹر کو بڑی محنت اور ہمت سے سنبھالا ہے۔ شکر الحمدللہ! سی پیک بڑی آزمائشوں کے بعد اللہ کے بے بہا کرم کی شکل میں اہل بلوچستان کی شرکت سے مثالی مستحکم اور خوشحال ہوتا معلوم دے رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہاں اسٹیٹس کو جتنا سخت جاں اور عوام دشمن ہے، یہ اتنی ہی تیزی سے ٹوٹ کر باقی صوبوں سے کہیں زیادہ تیز تبدیلی کے عمل میں آئے گا اور اس کے اولین اور غالب بینی فشری خود بلوچ ہی ہوں گے۔
پاکستان میں عوام کے ریاستی استحصال اور اداروں کی عوام مخالف کارکردگی کا روز بروز بذریعہ ’’اسپاٹ لائٹ جرنلزم‘‘ شدت سے واضح ہونا بھی اسٹیٹس کو کی ہوتی شکست کا واضح اشارہ ہے۔ میڈیا اپنی کچھ کمزوریوں کے باوجود، جو پیشہ ورانہ نوعیت کی ہیں اور وقت کے ساتھ درست ہوتی جائیں گی، عوام دوست ایجنڈا سیٹنگ کی طرف بھی آرہا ہے، خصوصاً اس کا فوکس گورننس کا معیار، آئین و قانون کی خلاف ورزی کا نوٹس اور حکمرانوں اور افسر شاہی کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی کرپشن کی اسپاٹ لائٹ رپورٹنگ کی طرف بڑھتا جارہا ہے جو نظام بد کے اندھیروں میں جاری دھندوں پر روشنی ڈال کر انہیں عوام کو دکھا رہا ہے۔ واقعاتی رپورٹنگ نسبتاً کم ہورہی ہے اور پبلک افیئرز کی نیوز رپورٹنگ بڑھ رہی ہے جس میں عوام کے عدم تحفظ، ان کے ساتھ ہونے والی حکومتی ناانصافیوں، محرومیوں اور مشکلات کو ایڈریس کیا جارہا ہے۔ اسی طرح تحقیقی رپورٹنگ میں بھی اضافے کا گراف بڑھ رہا ہے۔ گہری عوامی دلچسپی کے بہت سے ان رپورٹڈ موضوعات رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں جیسے غذا کا معیار، تعلیم و صحت کی ابتر صورتحال، عورتوں اور بچوں کی جانب معاشرے اور حکومت کی بے حسی، بلاشبہ پاکستانی میڈیا تیزی سے عوام دوستی اور حکومت کے احتساب کی طرف آرہا ہے، جس سے اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے کا عمل تیز ہورہا ہے۔
نظام بد کے قدرتی انجام کی طرف بڑھنے کی ایک بڑی علامت کہ فوج کی اپروچ میں جمہوریت کی جانب ایک مثبت تبدیلی، سول انتظامیہ میں عدم مداخلت کی سوچ اور اس کے مطابق اقدامات، سول تعلقات پر اس کا چوکس ہونا اور مواقع حاصل ہونے اور جواز پیدا ہونے پر بھی اپنی پیشہ ورانہ حدود میں ہی رہنا ہے۔ فوج اپنے ہی بنیادی فریضے سلامتی کے اہداف مقرر کرنا، انہیں حاصل کرنا اور پاکستان کے دفاع اور استحکام میں آئین کے مطابق اقدامات اور سول حکومتوں کی خواہش اور ضرورت کے مطابق تعاون کی فراہمی کی طرف مائل ہے۔
اہم ترین اور تاریخ ساز عندیہ، ملکی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے والے فراہمی انصاف کے فیصلوں کی عوامی توقعات و یقین میں اضافہ ہے۔ یہ درست ہے کہ بحالی جمہوریت (2008) کے بعد جو جوڈیشل ایکٹوزم دیکھنے میں آیا، اس سے گورننس کو روایتی سیاسی حکومتوں کی دھماچوکڑی کے باوجود انہیں کسی حد تک آئینی و قانونی فریم میں پابند بھی کیا گیا۔ لیکن اس عدالتی سرگرمی میں ایک بڑے وقفے کے بعد آج پھر پاکستانی عدالت عظمیٰ اور کسی حد تک عدالت ہائے عالیہ بھی فراہمی انصاف کو آئین و قانون کے مطابق بنانے اور اس عمل کو تیز کرنے کے لئے چوکس معلوم دے رہی ہیں۔ لیکن ملک کا سب سے بڑا چیلنج آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ ہے۔ وائے بدنصیبی،یہ سب سے بڑی ذمے داری ہے تو پارلیمنٹ کی، لیکن کیا کیا جائے کہ اس میں حکومت، حکمران جماعت اور نہ اپوزیشن، اپوزیشن کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، حتیٰ کہ ’’حقیقی اپوزیشن‘‘ کی دعویدار تحریک انصاف بھی عوامی توقعات کے برعکس، کوئی مثالی پارلیمانی کردار ادا نہ کرسکی۔ اگرچہ اس کا کفارہ عمران خان نے اپنی ذاتی سیاسی حیثیت میں پاناما کا پیچھا باندھ کر ادا کیا ہے لیکن پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنانے کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے خصوصاً بالائی سطح کی گورنرز آئین و قانون کے تابع ہوں اور نہ ہونے کی صورت میں عدلیہ، اپوزیشن، میڈیا اور خود باشعور عوام اپنا پیشہ وارانہ اور اجتماعی کردار ادا کریں۔



.
تازہ ترین