کرم ایجنسی کے انتظامی مرکز پاراچنارمیں گزشتہ روز ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے کی گئی دہشت گردی کی بزدلانہ واردات میں پچیس قیمتی انسانی جانوں کا نقصان بلاشبہ ایک بڑا قومی سانحہ ہے۔ واردات کیلئے سبزی منڈی اور صبح کے وقت کا انتخاب کیا گیا جب مقامی لوگ بڑی تعداد میںوہاں روزمرہ اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت میں مصروف تھے جس سے اس کارروائی کے ذمہ داروں کی انسانیت کش اور سنگ دلانہ ذہنیت پوری طرح عیاں ہے۔ منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق واقعے کی ذمہ داری فرقہ وارانہ تنظیم لشکر جھنگو ی العالمی نے قبول کرلی ہے۔اس کی جانب سے میڈیا کو موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی کالعدم تحریک طالبان سے الگ ہونے والے شہریار محسود گروپ کے ساتھ مل کی کی گئی ہے لیکن شہریار محسود گروپ نے اب تک اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی لہٰذا یہ دعویٰ ابھی تحقیق طلب ہے۔پاکستانی طالبان کے ترجمان کے ایک بیان میں اس کارروائی کو اپنی تنظیم سے منسوب کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دھماکے میں بارہ کلو وزنی بارودی مواد استعمال کیا گیا جسے سیب یا ٹماٹر کے کریٹ میں چھپایا گیا تھا۔ایک نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کرم ایجنسی کے بقول بم ڈسپوزل اسکواڈ سبزی منڈی کو روزانہ سوئپنگ کرکے کلیئر کرتا ہے اور گزشتہ روز بھی دھماکے سے تقریباً سوا گھنٹے پہلے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے سوئپنگ کے بعد منڈی کو کلیئر قرار دیا تھا جس سے واضح ہے کہ یا تو سوئپنگ میں غفلت برتی گئی یا جو آلات اس مقصد کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں وہ ناقص ہوچکے ہیں اور ان کی کارکردگی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ اس شبہ کی گنجائش بھی بہرحال موجود ہے کہ سوئپنگ کے ذمہ دار اہلکاروں ہی میں سے کوئی دہشت گردی کی اس کارروائی میں شریک ہو ، تحقیقات میں ان تمام پہلوؤں کو شامل رکھا جانا چاہیے۔ اگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ سانحہ کسی خود کش بمبار کی کارروائی کا نتیجہ نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے تو پھر اس امکان کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے کہ یہ کسی بیرونی ایجنسی کے کارندوں کی کارروائی تو نہیں کیونکہ طالبان اور دوسری انتہاپسند اور متشدد مسلکی تنظیمیں بالعموم دہشت گردی کیلئے خود کش حملہ آوروں سے کام لیتی ہیں۔اس کے باوجود سانحہ پارا چنار کے فرقہ وارانہ پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس علاقے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔پچھلے برسوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی متعدد کارروائیاں کرم ایجنسی میں ہوچکی اور ان میں متشدد مسلکی تنظیمیں ہی ملوث پائی گئی ہیں۔پارا چنار کے تازہ سانحہ پر بھی تحریک جعفریہ نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے کیونکہ اس پورے علاقے میں اکثریت فقہ جعفریہ کے وابستگان کی ہے۔فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے سدباب کیلئے محض طاقت کا استعمال کافی نہیں، یہ مقصد مسلکی انتہاپسندی ختم کیے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا جس کیلئے طرز فکر کی اصلاح ناگزیر ہے اور یہ کوئی ناممکن ہدف نہیں۔ پاکستان کا قیام تمام مسالک کے ماننے والوں کی مشترکہ جدوجہد سے عمل میں آیا ہے۔ملک کے ابتدائی برسوں میں قرارداد مقاصد اور آئین سازی کیلئے ملک کے تمام دینی مسالک کے اکتیس نمائندہ علمائے کرام کی جانب سے بائیس متفقہ نکات کی تیاری اور موجودہ دستور پر تمام دینی مکاتب فکر کا اتفاق مسلکی ہم آہنگی ہی کے باعث ممکن ہوا تھا۔ اس کے بعد ملی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسی تنظیموں کی شکل میں پاکستان کے تمام مسالک کے علماء اپنے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ گورنر خیبر پختون خوا نے گزشتہ ہی روز ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں تمام مکاتب فکر کے لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خواہاں ہیں اور فاٹا میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی بہتری یقینی ہے۔تاہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ملک گیر سطح پر مؤثر اقدامات ضروری ہیں جس کیلئے ماضی کی طرح ایک بار پھر دینی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو اپنا کردار کرنا ہوگا۔
.