• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ نے 45 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اور اس کے ساتھ ہی امریکہ سمیت پوری دنیا میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے ، جسے خدشات اور بے یقینی کی صورت حال سے تعبیر کی جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی اپنے سیاسی نظریات اور اپنی باتوں سے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بنتے ہی خود امریکہ اور باقی دنیا کے ساتھ کیا ہونے والا ؟ دنیا اس سوال میں الجھ کر رہ گئی ہے ۔
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آج امریکہ کے داخلی حالات کیا ہیں اور بدلتے ہوئے عالمی حالات میں امریکہ کہاں کھڑا ہے ۔ یہاں سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے ایک انٹرویو کا تذکرہ کرنا ضروری ہے ، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ان کا بیٹا کینسر میں مبتلا تھا ۔ اس کے علاج کیلئے ان کے پاس رقم نہیں تھی ۔ ان کا واحد اثاثہ ان کا مکان تھا جو انہوں نے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سابق امریکی صدر اوباما کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے علاج کے پیسے دیئے اور مکان فروخت ہونے سے بچ گیا ۔ جوبائیڈن کے اس انکشاف پر پوری دنیا میں زبردست بحث ہوئی ۔ سب کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت کے نائب صدر کے عہدے پر پہنچنے والے شخص کے پاس اپنے بیٹے کے علاج کیلئے رقم نہیں تھی ۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہاں سیاست کو پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا اور وہاں کرپشن بھی نہیں ہے ۔ پاکستان کے لوگ اس انکشاف پر بہت زیادہ حساس نظر آئے اور انہوں نے پاکستانی سیاست دانوں کی دولت اور کرپشن کے اسکینڈلز کے تناظر میں اس بات کو دیکھا ۔ اس مثال سے امریکی معاشرے کی اس روحانی طاقت اور ان مضبوط اقدار کا ادراک کیا جا سکتا ہے ، جن کی نشاندہی ممتاز امریکی دانشور ’’ ول ڈیورانٹ ‘‘ نے ایک صدی قبل کی تھی اور یہ پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ دنیا پر حکمرانی کرے گا ۔ جوبائیڈن کے واقعہ کا ایک اور پہلو بھی ہے ، جس کو نظرانداز کیا گیا ہے ۔ اس واقعہ نے امریکہ کے فلاحی ریاست ہونے کا تاثر ختم کر دیا ہے ۔ امریکہ میں سوشل سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس ملک کا نائب صدر بھی اپنے بیٹے کا علاج نہیں کراسکتا اور علاج کیلئے اپنی جائیداد فروخت کرنے پر مجبور ہے ، جس معاشرے میں سماجی عدم تحفظ زیادہ ہو ، وہاں کی روحانی اقدار کمزور پڑ جاتی ہیں ۔
امریکی معاشرے کی روحانی اقدار پر سب سے کاری ضرب اس عہد میں لگی ، جسے امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا عہد کہا جاتا ہے اور جس میں امریکہ نے دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر کرہ ارض کے تمام انسانوں کی قسمت کے فیصلے خود کئے ۔ا س عہد میں مسلم دنیا کو دشمن قرار دے کر مصنوعی بدامنی اور انتشار کو فروغ دیا گیا ، جس کی وجہ سے امریکی اور مغربی معاشروں میں تعصب اور تنگ نظری نے جڑیں پکڑیں اور یہ معاشرے اندر سے کھوکھلے ہوتے چلے گئے ۔ اس کیساتھ ساتھ چین اور مشرق کے دیگر ممالک کی ابھرتی ہوئی معیشتوں نے مغربی معیشتوں میں مقابلے کی صلاحیت کم کر دی ۔ تعصب اور تنگ نظری نے مزید صورت حال خراب کر دی ۔
اس پس منظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور بحیثیت صدر ان کے پہلے خطاب کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ منتخب امریکی صدر کی حلف برداری کے موقع پر امریکہ کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ برطانیہ ، کینیڈا ، جاپان ، جرمنی اور فلسطین میں بھی مظاہرے ہوئے ۔خود امریکہ میںواشنگٹن میںلاکھوں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہوا جس میں صدر ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ امریکی پولیس نے 500 مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا ۔ حلف برداری کے موقع پر امریکہ سمیت دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ترین صدر ہونے کا تاثر پختہ کر دیا ہے اور ٹرمپ نے بحیثیت صدر امریکہ بھی اس تاثر کو درست ثابت کر دیا ہے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ اب دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرے گا ۔ یعنی انہوں نے امریکی عالمی سامراجی عزائم کا کھلے عام اظہار کر دیا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ دنیا سے اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے گا ۔ ان کی اس بات سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے ۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں ، جنہوںنے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی ہے حالانکہ دہشت گردی اسلامی ،عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں ہوتی ۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا قوم نہیں ہوتی ۔ صدر ٹرمپ نے اس تاثر کو بھی درست ثابت کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ بھی لگایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ امریکیوں کو نوکریاں دی جائیں اور امریکی مصنوعات خریدی جائیں ۔ اس طرح انہوں نے تارکین وطن کے خلاف امریکی قوم پرستی کے نام سے ایک مہم شروع کر دی ہے ۔ ان کی قوم پرستی میں تنگ نظر نسل پرستی کا تاثر مل رہا ہے ۔ دنیا کو صدر ٹرمپ کی وجہ سے عالمی امن کیلئے جو خدشات پہلے سے محسوس ہو رہے تھے ان میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
تقریب حلف برداری میں صرف عیسائی پادریوں کو بلا کر یہ بھی تاثر دیا گیا کہ امریکہ ایک عیسائی مذہبی ریاست ہے ۔ صدر ٹرمپ کی وجہ سے دنیا بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے ۔ واشنگٹن کے کیپٹل ہل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر امریکہ میں ہونے والے مظاہروں سے امریکہ منقسم نظر آیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اعلان کرکے یہ ثابت کیا کہ ایک سفید فام امریکی کی حیثیت سے ان کی اینگلو سیکسن نسل والی جبلت جاگ اٹھی ہے ۔ وہ دنیا کو ایک بار پھر جنگوں کے ذریعے فتح کرنا چاہتے ہیں ۔سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا کر انہوں نے امریکی قوم پرستی کی آڑ میں تنگ نظر نسل پرستی کو رائج کر دیا ہے ، جو خود امریکہ میں رہنے والی دیگر غیر سیاہ فام نسلوں کیلئے تباہ کن ہو گی ۔ امریکی اشیاء خریدنے اور امریکیوں کو نوکری دینے کا نعرہ لگا کر انہوں نے تارکین وطن والے امریکی معاشرے کی حقیقی روح کو مسخ کر دیا ہے اور یہ باور بھی کرا دیا ہے کہ امریکہ چین اور دیگر مشرقی معیشتوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کی وجہ سے دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس نے امریکی سرحدوں کی بجائے دوسرے ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی داخلی سلامتی کو وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نسبت زیادہ بے رحمانہ سامراجی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں امریکہ کو پسپائی حاصل ہو رہی ہے ۔ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود امریکہ اور دنیا کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔


.
تازہ ترین