• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں میرے قریبی دوست اور ماہر ٹیکس محمد شبر زیدی کی پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں پر لکھی گئی کتاب ’’پانامہ لیکس، اے بلیسنگ اِن ڈسگائز‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر کارپوریٹ پاکستان گروپ (CPG) جس کا میں سرگرم ممبر ہوں، نے آرٹس کونسل کراچی میں ایک مباحثے کا انعقاد کیا۔ یہ کتاب شبر زیدی کے اُن تمام کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پانامہ لیکس اور بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثوں پر لکھے تھے۔ تقریب میں میرے علاوہ ملک کے ممتاز ٹیکس ماہرین، قانون دانوں، چیف کمشنرز انکم ٹیکس، ممتاز بزنس لیڈرز اور سول سوسائٹی کی اہم شخصیات نے شرکت کی جبکہ مقررین میں شبر زیدی کے علاوہ کتاب کے پبلشر اور معروف صحافی وامق زبیری، حبیب میٹروپولیٹن بینک کے صدر سراج الدین عزیز، چارٹرڈ اکائونٹینٹ اسد علی شاہ، ذوالفقار علی، رضا زیدی اور کارپوریٹ گروپ کے روح رواں احسن اظفر شامل تھے۔ کارپوریٹ پاکستان گروپ اس سے پہلے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس ایمنسٹی اور پاکستان کے ٹیکس قوانین پر مباحثے کا انعقاد بھی کرچکا ہے۔
موضوع کی مناسبت سے آرٹس کونسل کراچی کا آڈیٹوریم شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جنہوں نے اس معلوماتی اور دلچسپ مباحثے میں بھرپور حصہ لیا۔ کتاب کے مصنف شبر زیدی نے بتایا کہ ان کے دوستوں نے انہیں اس حساس موضوع پر لکھنے سے منع کیا تھا لیکن ملکی مفاد میں انہوں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہناتھا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغواء برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنے پیسے بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروبار میں لگائے جو آج پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں 80 ارب ڈالر سے تقریباً دگنے 150 ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ ان اثاثوں میں سے تقریباً 115 ارب ڈالر بزنس مینوں کے ہیں جبکہ تقریباً 35 ارب ڈالر کے اثاثے بدعنوانی اور کرپشن سے حاصل کئے گئے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت نے حال ہی میں بیرونی اثاثوں اور انکم کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بھارت میں بیرون ملک رکھے گئے ان اثاثوں کو 45 فیصد ٹیکس ادا کرکے قانونی بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت میں بڑے نوٹوں کی منسوخی اور غیر قانونی دولت پر کریک ڈائون کی وجہ سے بے شمار بھارتیوں نے نئی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا اور اب تک 64,275 افراد مجموعی طور پر 9.8 ارب ڈالر (652.5 ارب بھارتی روپے) ظاہر کرکے اپنی رقوم قانونی بناچکے ہیں جبکہ امریکی گروپ گلوبل فنانشل کے مطابق 2002ء سے 2011ء کے درمیان بھارتیوں نے بیرون ملک تقریباً 343 ارب ڈالر غیر قانونی طور پر منتقل کئے ہیں۔ شبر زیدی نے بتایا کہ پاکستان کے ٹیکس قوانین انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ، پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء، پروٹیکشن آف فارن ایکسچینج ایکٹ پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آف شور کمپنیاں پاکستان میں ٹیکس کی چوری کیلئے نہیں بلکہ بیرون ملک ٹیکس اور دیگر کاروباری معلومات نہ دینے کی وجہ سے قائم کی گئی ہیں۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ٹیکس قوانین نہایت سخت ہیں، پاکستانی انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کوئی بھی پاکستانی بیرون ملک اپنے اثاثے ظاہر کئے بغیر رکھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی سرمایہ کاری اور آمدنی پاکستان سے نہ ہو۔ اسی طرح موجودہ فارن ایکسچینج قوانین کے تحت پاکستان میں قانونی طور پر حاصل کی گئی انکم کو اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر غیر ملکی کرنسی میں بیرون ملک منتقل کیا جاسکتا ہے جس سے وہ بیرون ملک اپنے قانونی اثاثے بناسکتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن III(4) کے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی ہیں اور اگر کوئی شخص اپنا کالا دھن قانونی بنانا چاہتا ہے تو وہ 2 سے 3 فیصد اخراجات پر اپنی رقم حوالے کے ذریعے بیرون ملک سے اپنے اکائونٹ میں منتقل کرکے قانونی بناسکتا ہے، پاکستانی ٹیکس قوانین میں ٹیکس چوری قابل سزا جرم نہیں ہے۔ بحث میں انکم ٹیکس قوانین کی تشریح کرتے ہوئے تمام ممتاز انکم ٹیکس ماہرین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملکی قوانین کے مطابق اگر کسی ٹیکس دہندہ (Filer) نے اپنے ملکی یا غیر ملکی اثاثے 5 سال تک انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کئے تو ایف بی آر 6 سال پرانے ان اثاثوں جو فروخت یا گفٹ کردیئے گئے ہیں، کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرسکتا۔ شرکاء نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ حکومت کے بیرون ملک اثاثوں کو پاکستان لانے کیلئے دبائو کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ کئی بزنس مین جو دہری شہریت رکھتے ہیں، اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے پاکستانی شہریت چھوڑ دیں جو نہایت افسوسناک عمل ہوگا۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے بزنس مینوں کے وفد جس میں میرے علاوہ میرے بھائی اشتیاق بیگ بھی شامل تھے، نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تجارت سے ملاقات کی۔ میٹنگ کے دوران ملک و بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثوں کیلئے ایمنسٹی اسکیم کے حکومتی اعلان کے حوالے سے رائے پوچھنے پر بزنس کمیونٹی نے حکومت کی مکمل حمایت کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزنس کمیونٹی اپنے اثاثے قانونی بنانا چاہتی ہے۔ قیام پاکستان کے 70 سالوں کے دوران مختلف حکومتوں کی غیر تسلسل پالیسیوں سے بزنس مینوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں نجی اداروں کو نجکاری کے ذریعے سرکاری تحویل میں لینا، نواز شریف دور حکومت میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، کراچی میں امن و امان کی ناقص ترین صورتحال اور انرجی بحران کے باعث جان و مال اور سرمائے کے تحفظ کیلئے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کا اپنی صنعتیں اور سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کرنا وہ حقیقی عوامل تھے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری کی منتقلی کا سبب بنے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بہتر بناکر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ وہ بیرون ملک کمائی گئی اپنی دولت دوبارہ وطن واپس لاسکیں۔
پاکستان سمیت 104ممالک کے OECD معاہدے کے تحت 2017ء سے رکن ممالک ٹیکس چوری کی روک تھام کے سلسلے میں بینکنگ معلومات شیئر کرنے کے پابند ہوں گے لہٰذامنی لانڈرنگ کے سخت عالمی قوانین کے پیش نظر اپنے پاکستانی بھائیوں کو میری یہ تجویز ہے کہ ان حالات میں پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری زیادہ محفوظ اور منافع بخش ثابت ہوگی۔ حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے دورے کے موقع پر ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے حوالے سے میری کاوشوں کو سراہا ہے جبکہ فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے ملک و بیرون ملک موجود غیر ظاہر شدہ اثاثے ظاہر کرنے کیلئے 5 فیصد حکومتی ٹیکس کے بجائے بزنس کمیونٹی کی تجویز کردہ 2 سے 3 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر آخری بار ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کی مکمل حمایت کی ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے بجائے انکم ٹیکس گوشواروں میں انہیں ظاہر کرنا حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

.
تازہ ترین