• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کا بہت شکریہ بے وفا صاحب کہ آپ نے اپنی گوناں گوں مصروفیات میں سے ہمارے لئے وقت نکالا!!
’’میںانگریزی کا آدمی ہوں، میری اردو ذرا کمزور ہے،
’’یہ گوناں گوں کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’مطلب تو مجھے بھی نہیں پتہ، سنا ہے کہ یہ لفظ بہت زیادہ مصروفیات کے لئے استعمال ہوتا ہے‘‘
’’جی جی، مصروف تو میں واقعی بہت زیادہ ہوں، لیکن آپ خود چلے آئے، آپ کے ہاں لیڈی رپورٹر کوئی نہیں؟‘‘
جی ہے، مگر اس کی بھی گوناں گوں مصروفیات ہیں، چنانچہ آپ کے انٹرویو کا اعزاز مجھ ہی کو حاصل ہو رہا ہے، اگر اجازت ہو تو آپ سے گفتگو کا آغاز کیا جائے،
’’جی پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’میں نے آپ کے بہت زیادہ بیانات ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کے خلاف پڑھے ہیں۔ مگر آپ نے خود ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں، یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘
معاملہ بہت سیدھا ہے مگر آپ نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
وہ اس طرح کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے خلاف مہم چلانے والے بیشتر افراد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں، مگر آپ نے مجھ اکیلے پر سارا بوجھ ڈال دیا‘‘
اس لئے کہ گفتگو آپ سے ہو رہی ہے، ویسے بے وفا صاحب ، ایک اور بات جو مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ مولوی صاحبان ایک سے زیادہ شادیوں کے حق میں مسلسل خطبات دیتے ہیں، لیکن خود ایک سے زیادہ شادی ان میں سے بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ان کا کوئی داماد دوسری شادی کا خواہشمند نظر آئے تو وہ سارے شرعی جواز بھول جاتے ہیں اور ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں‘‘
’’یہ آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں، ان سے پوچھیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے‘‘
’’اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے قول و فعل کے تضاد والی بات پر کھل کر قہقہہ لگا لوں؟‘‘
’’ضرور لگائیں، مگر اب کوئی اور بات پوچھیں‘‘
’’چلیں ٹھیک ہے، بے وفا صاحب آپ یہ بتائیں لوگ آپ کو بے وفا کیوں کہتے ہیں اور آپ نے اس کا برا ماننے کی بجائے اسے اپنے نام کا حصہ کیوں بنا لیا ہے؟‘‘
’’دیکھیں جی بات یہ ہے اور آج پہلی دفعہ اس رازسے پردہ اٹھارہا ہوں۔ میراایک بہت عزیز دوست تھا، جس کا نام وفا تھا، قضائے الٰہی سے وہ فوت ہو گیا، یعنی میں وفا سے محروم ہو گیا۔ چنانچہ میں نے اس کے بعد بے وفا کہلانا پسند کیا، یعنی اپنے دوست وفا کے بغیر زندگی گزار رہا ہوں، آپ کو کیا پتہ مجھے اس سے جدائی کا کتنا صدمہ ہے۔ لیکن اب آپ ابھی تک ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں، انٹرویو تو شروع نہیں کیا۔
’’میں سمجھ گیا ہوں‘‘ آپ انٹرویو کسے سمجھتے ہیں، تو میں آغاز کرتا ہوں۔ بے وفا صاحب میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کو پھول کون سا پسند ہے؟
جس میں خوشبو نہ ہو۔
کوئی پسندیدہ شعر؟‘‘
صداقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
گویا آپ کو کاغذ کے پھول پسند ہیں۔
جی ہاں، یہ صرف دیکھنے کے کام آتے ہیں، نہ انہیں قبروں پر چڑھایا جا سکتا ہے نہ یہ کسی کے گلے پڑتے ہیں۔
’’تاہم کوئی خوشبو بھی تو آپ کو پسند ہو گی؟‘‘
’’جی ہاں، نئے کرنسی نوٹوں کی خوشبو پسند ہے‘‘
’’آپ صبح اٹھتے پہلا کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’اخبار پڑھتا ہوں تاکہ پتہ چل سکے کہ کون مضبوط جا رہا ہے‘‘
’’اس کا مقصد‘‘
اس کا مقصد واضح ہے، جو مضبوط ہو اس کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ اس سے انسان جلدی اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے!‘‘
’’آپ کا گھر قبرستان میانی صاحب کے قریب ہی ہے نا؟‘‘
جی، مگر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔
بس ایسے ہی، چلیں یہ بتائیں آپ کو اداکار کون سا پسند ہے۔
کوئی بھی نہیں۔ اور اداکارہ
سبھی پسند ہیں۔
’’ہیجڑوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے‘‘
مجھے بہت پسند ہیں، یہ کسی ایک طرف نہیں ہوتے!‘‘
آپ کا پسندیدہ رنگ؟
سفید،
’’میں نے خون کا رنگ نہیں پوچھا۔
تو پھر سیاہ
وہ کیوں؟
کیونکہ مجھے ماتمی ماحول سازگارہے۔ انسان کسی کے بھی گلے لگ کر اسے پُرسا دے سکتا ہے۔ جبکہ عام حالات میں اس کی صرف تمنا ہی کی جا سکتی ہے۔
’’آپ نے کبھی کسی سے محبت کی؟‘‘
جی ہاں! جو شخص محبت نہیں کر سکتا، میں اسے انسان ہی نہیں سمجھتا، میں اب تک ڈیڑھ دو سو محبتیں کر چکا ہوں۔
معاف کیجئے میں نے محبت کا پوچھا ہے اور آپ بڑ ہانکنے لگے ہیں‘‘
چلیں آپ کو بتائے دیتا ہوں۔
ایک بزرگ خاتون سے محبت کی تھی!
بزرگ خاتون؟
جی ہاں وہ کوئی ستر کے پیٹے میں تھیں بے اولاد تھیں اور تازہ تازہ بیوہ ہوئی تھیں، میں ان کو دل دے بیٹھا مگر میری یہ محبت آغاز ہی میں ناکام ہو گئی۔
وہ کیسے،
مرحومہ نے اپنی ساری جائیداد اپنے دور پار کے ایک عزیز کے نام کر دی مجھے اس کا بہت صدمہ ہوا‘‘
گویا آپ کے ساتھ بے وفائی ہوئی۔ آخر میں ایک اور سوال کیا آپ فلم میں کام کرنا پسند کریں گے؟
کیوں نہیں، کیوں نہیں، مگر مجھے اداکاری کرنا نہیں آتی‘‘
’’یہ تو آپ انکسار سے کام لے رہے ہیں، ویسے بھی فلم میں آپ کا کردار بے وفا ہیرو کا ہو گا اور یوں آپ کو اداکاری کرنا ہی نہیں پڑے گی!‘‘
میرے ساتھ ہیروئن کون ہو گی؟
وہ تو آپ بدلتے رہیں گے نا‘‘
اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ فلم شروع کریں اور سرمائے کی فکر نہ کریں وہ میں خود لگائوں گا‘‘
انٹرویو کے لئے بہت شکریہ بے وفا صاحب! یہ میرا آخری انٹرویو ہے۔ آج میں اخبار سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میں اور آپ مل کر اب فلمسازی کے میدان میں اپنا سکہ جمائیں گے۔ آپ ہر دوسرے سین میں ایک نئی ہیروئین کے ساتھ نظر آئیں گے۔ چیک لینے کب حاضر ہو جائوں؟‘‘


.
تازہ ترین