• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے 45ویں صدر ٹرمپ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ،ان کی تقریب حلف وفاداری کے حوالے سے پاکستان کو پہلی پریشانی یہ ہوئی ہے کہ ہماری حکومت کی ہزار کوششوں کے باوجود وائٹ ہائوس میں ہمارے وزیر اعظم کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کی خواہش پوری نہیں ہوسکی۔حالانکہ وزیر اعظم ڈیووس سے پہلے سیدھے امریکہ جانے والے تھے اب وہ اپنے کچھ ذاتی معاملات کے حوالے سے ڈیووس سے صرف برطانیہ گئے جہاں وہ مختلف اسٹورز میں شاپنگ اور کچھ خاص دوستوں سے ملاقاتیں کریں گے جو انہیں پاناما کیس کے پریشر سے نکلنے میں نئی لائن دے سکتے ہیں۔یہ سب کچھ وہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب امریکہ میں نئی حکومت چارسال کے لئے نہ صرف ہیلری کلنٹن اور اس کی لابی بلکہ وہاں کے میڈیا کی اکثریت کو شکست دے کر صدر ٹرمپ کی زیر قیادت اقتدار میں آئی ہے ۔صدر ٹرمپ کو صدر ریگن کے بعد دوسرا دلچسپ ترین صدر قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ان کے مخالفین انہیں ہر طرح سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ سیاست دان نہیں بلکہ بورڈ روم کے آدمی ہیں اور اس حوالے سے کامیاب انسان ہیں۔انہیں ٹیکس دینے اور نہ دینے کے سارے گُر آتے ہیں وہ بنیادی طور پر سوشل سول سوسائٹی کی شخصیت ہیں اس لئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے برعکس ایک ذمہ دار اور بزنس مین امریکی صدر ثابت ہونگے ۔اس حوالے سے اب بال پاکستان اور ہماری حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ پاک امریکہ اقتصادی تعلقات کے حوالے سے کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ امریکن بزنس کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18-2017ء میں امریکہ کی 70سے زائد کمپنیاں یہاں بزنس کرنے کے لئے آگے آنے والی ہیں لیکن انہیں خدشہ صرف یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اقتصادی مقاصد کے حوالے سے CPECکے پس منظر میں چین پر انحصار کر رہا ہے جو کہ اقتصادی معاملات کے حوالے سے صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اب تک CPEC میں پاکستان سے زیادہ چین کو فائدہ حاصل ہوتا نظر آ رہا ہے اور چین کے قرضوں کا حجم بھی پاکستان پر بڑھ رہا ہے۔ امریکی حکام نے صدر ٹرمپ کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے جو مختلف بریفنگ دی ہے اس میں اقتصادی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کے ساتھ امریکہ مستقبل میں تعلقات بڑھائے گا مگر یہ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات اور رویے پر منحصر ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہترین وقت ہے کہ اسے نئے انداز اور ضروریات کے تحت ری وزٹ کیا جائےاور صرف چین نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ سمیت سب کے ساتھ متوازن تعلقات کی پالیسی اپنائی جائے اس کے لئے امریکہ کی نئی حکومت جو توقعات کے برعکس مختلف ممالک سے جنگ نہیں ،اقتصادی تعلقات بڑھانے پر فوکس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکام روابط بڑھائیں۔ہوسکتا ہے صدر ٹرمپ غیر سنجیدہ شخصیت کی بجائے ایک سنجیدہ اور ذمہ دار صدر ثابت ہوں۔جس سے بھارت اور دوسرے پاکستان دشمن زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ہم سوچ بچار ہی کرتے رہ جائیں۔اس حوالے سے امریکہ کے لئے پاکستان کے نئے نامزد سفیر سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری پر ذمہ داریاں ضرور بڑھ جائیں گی لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ وہ بطور سیکرٹری خارجہ خطے کے حالات اور پاک امریکہ تعلقات کے پس منظر میں کافی ادراک رکھتے ہیں وہ یقیناً پاکستان کے امیج کو امریکی حکام کے سامنے بہتر بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کریں گے لیکن یہ تو تب ہی ممکن ہو گا جب ہمارے حکمراںیک ملکی بزنس فوبیاسے باہر نکلیں گے۔

.
تازہ ترین