• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں عام انتخابات غیر جانب دار اور شفاف بنانے کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کا کام تقریبا مکمل کر لیا ہے اور حکومت تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے 27ویں آئینی ترمیم پیش کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ وزیر ا عظم نواز شریف کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کو انتخابی اصلاحات کی تیاری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی درخواست جولائی دو ہزار چودہ میں تب کی گئی تھی جب عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے تحت ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کے بعد اگست میں لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا تھا۔ ہمیشہ دیر کر دینے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے تب بھی انتخابی اصلاحات کیلئے عملی قدم اس وقت اٹھایا تھا جب پلوں سے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا،نتیجہ 126 دن کے طویل ترین دھرنے اور قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت میں نکلا۔ سراپا احتجاج ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی اصلاحات کیلئے قائم کی گئی چونتیس رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ابتدائی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے کمیٹی کو دی گئی نہ صرف تین ماہ کی مدت ختم ہو گئی بلکہ ملک کے مستقبل سے وابستہ انتہائی اہم کام ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود تاحال قانونی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ ماہ انتخابی اصلاحات کیلئے تیار کی گئی دوسری عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے مجوزہ بل پر میڈیا ،سول سوسائٹی اور عوام سمیت تمام فریقین سے تیس دن کے اندر تجاویزطلب کی تھیں جو یقیناً جمع بھی کرا دی گئی ہوں گی کیوں کہ تیس دن کی یہ معیاد بھی ختم ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے انتخابی اصلاحات کیلئے پہلی عبوری رپورٹ کی روشنی میں گزشتہ سال مئی میں بائیسویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کی اہلیت تبدیل کرنے کے ساتھ ادارے کے تسلسل کو برقرار رکھنا یقینی بنایا گیا تھا۔ دوسری عبوری رپورٹ کی روشنی میں الیکشنز بل 2017 کا جو مسودہ تجویز کیا گیا ہے اس کے تحت ملک بھر میں عام انتخابات سے متعلق رائج تمام نو قوانین اور ضابطوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ مجوزہ بل کے ذریعے الیکشن کمیشن کو کسی حد تک انتظامی اور مالی خود مختاری دینے سمیت سیاسی جماعتوں کو جنرل نشستوں پرپانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کا پابند بنانے اور پولنگ کی شرح میں خواتین کے دس فیصد سے کم ووٹوں کی صورت میں متعلقہ حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دینے جیسی اہم شقیں شامل کی گئی ہیں لیکن انتخابی قوانین کی خلاف ورزی پر متعلقہ امیدوار کو نا اہل قرار دینے پر قد غن عائد کرنے ، انتخابی ضابطوں کو بدستور پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کرنے، متعلقہ امیدوار کی طرف سے انتخابی اخراجات اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے متعلق غلط بیانی کے باوجود اس کے خلاف براہ راست کاروائی نہ کرنے اور ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمیشن کے ماتحت نہ کرنے جیسی اہم کمزوریاں بدستور مجوزہ قانون کا حصہ ہیں جن پر آئندہ تفصیلی تحریر کروں گا۔ اس کالم میں مجوزہ انتخابی قانون کی ان شقوں کو زیر بحث لاتے ہیں جن کا واحد مقصد اطلاعات تک رسائی کو ناممکن بنانا اور میڈیا کے کردار کو محدود کرنا ہے۔ میڈیا کے خلاف مجوزہ آئینی شقوں کو متعارف کرانے سے بھی زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس عمل میں اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کا دعوی کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اسی خوش فہمی کو دور کرنے کیلئے کہ اظہار رائے پر قدغن لگانے جیسی مجوزہ شقوں کی حمایت کرنے والی ان جماعتوں کے مختلف رہنماؤں سے بات چیت کی تو ساری خوش فہمی ہوا ہو گئی بلکہ یہ ادراک ہوا کہ میڈیا کے کردار سے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں خائف ہیں اور وہ سب متحد ہو کر اس کے پر کترنے کیلئے تیار ہیں جس کا آغاز انتخابی قانون 2017 کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 واضح کرتا ہے کہ قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہو گا لیکن پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے مجوزہ انتخابی بل میں دفعہ 194 سی کے تحت اس شخص کیلئے 50 لاکھ روپے جرمانہ اور5 سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جوکسی بھی ایسی معلومات یا مواد کی اشاعت یا ترسیل کرے گا جو سیکورٹی یا سکریسی کے زمرے میں آتا ہو جبکہ الیکشن کمیشن کے غیر مجاز عہدے دار کو بھی کسی دوسرے شخص کو اطلاعات یا مواد کی فراہمی پر یہی سزائیں دینے کی تجویز کی گئی ہے۔ ان مجوزہ سزاؤں کا واضح مقصد میڈیا کو اطلاعات تک رسائی سے روکنا ہے تاکہ وہ انتخابات سے متعلق نہ کوئی اہم اطلاع شائع یا نشر کرے اور نہ ہی انتخابات کے دن نتائج کا غیر سرکاری اور غیر تصدیق شدہ اعلان کرے بلکہ وہی سرکاری سچ نشر یا شائع کرے جو اسے سرکارکی طرف سے بیان یا اعلان کی صورت میں جاری کیا جائے۔ اسی طرح مجوزہ اانتخابی قانون میں دفعہ 61 کی ذیلی شق دو کے تحت کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران میڈیا کی موجودگی پربھی پابندی عائد کی گئی ہے۔اس قدغن کے تحت میڈیا یا اس کا کوئی نمائندہ امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے عمل کے دوران وہاں موجود نہیں ہو گا۔ انتخابات کی شفافیت کے اس انتہائی اہم عمل سے میڈیا کو دور رکھنے کیلئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے والے یکسر بھول چکے ہیں کہ یہ میڈیا ہی تھا جس نے گزشتہ عام انتخابات میں ریٹرننگ افسران کی طرف سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران پوچھے جانے والے انتہائی غیر متعلق،نا زیبا اور معیوب سوالات کے بارے میں نشان دہی کی تھی اور میڈیا کی طرف سے توجہ دلانے کے بعد ہی لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرننگ افسران کو متعلقہ سوالات تک محدود رہنے کی ہدایت کی تھی۔ اب اسی میڈیا کے کردار سے شاکی قانون ساز یہ بھی چاہتے ہیں کہ انتخابات سے متعلق دستاویزات بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی پہنچ سے دور رکھی جائیں اسلئے وہ کاغذات نامزدگی،امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی تفصیل،پولنگ اسٹیشن کے الیکشن نتائج کے فارم، بیلٹ پیپرز اکاونٹس، حلقہ وار انتخابی نتائج کی تفصیل سمیت دیگر اہم دستاویزات فوری طورپر حاصل نہیں کر سکیں گے بلکہ الیکشن کمیشن دو ہفتے تک یہ دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کریگا۔ پاکستان میں میڈیا پر نئے انتخابی قانون کے تحت قدغن لگانے کی خواہش رکھنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں نافذ کردہ ایمرجنسی کے دوران میڈیا کے ساتھ مل کر سڑکوں پر احتجاج کیا کرتے تھے۔ انتخابی اصلاحات کے لئے دوسری عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے گزشتہ ماہ سینیٹر اسحاق ڈار نے دعوی کیا تھا کہ مجوزہ انتخابی بل کی تیاری کے لئے سول سوسائٹی،بار ایسوسی ایشنز اور میڈیا سمیت تمام فریقین کو اعتماد میں لیا گیا ہے لیکن اگر اس دعوے میں سچائی ہوتی تو اس مجوزہ بل کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج نہ ہوتیں اور نہ وہ حکومت کو میڈیا کے لئے تجویز کردہ پابندیاں اور سزائیں واپس لینے کا مطالبہ کرتیں۔ میڈیا کے ساتھ پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پرنظر رکھنے والی فافن جیسی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی مجوزہ انتخابی بل میں میڈیا کے کردار کو محدود کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔ قانون سازی کرنے والوں کو یہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ جمہوریت اور میڈیا لازم وملزوم ہیں ،میڈیا کا گلا دبا کر کسی بھی طرح شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اطلاعات تک رسائی کو سہل بنانے کی بجائے نا ممکن بنانے والوں کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ قول بھی ازبر ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین