• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ برس اپریل سے پاکستان میں پاناما لیکس کے حوالے سے بڑا شور ہے۔ جسے ہر کوئی اپنے اپنے مفادات میں استعمال کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی تحقیقات کیلئے پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر کردہ آئینی درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ عدالت سے باہر پی پی بھی ’’ سوکھی‘‘ دھمکیاں دےرہی ہے تاکہ اپنے آپ کو تسلی دے سکے کہ وہ اصل اپوزیشن ہے ۔ عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات بمع ثبوت وزیراعظم اور اُن کے بچوں کیلئے دینا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ عدالت عظمیٰ میں جج صاحبان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کوئی جزیرہ نہیں جہاں جس کا جو دل چاہے کرتا پھرے، پارلیمنٹ کے اندر جرم کا ارتکاب کسی رکن کی بھی سرکاری ذمہ داری نہیں، وہاں پر قانون کی پابندی لازم ہے، وزیراعظم کی تقریروں اور عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات میں تضاد ہے، عدالت پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں کی تشریح کر سکتی ہے ۔ قانونی نکتہ وزیراعظم کی نااہلی کا ہے جبکہ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم کی تقریروں اور ان کے بیٹے کے بیان میں تضاد بھی ہو تو انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 66کے تحت انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کو نااہل قرار دینا تو دُور کی بات، کسی کی جرات نہیں کہ وہ کسی ایم این اے کو بھی ڈی سیٹ کر سکے۔ رانا ثنا ء اللہ کا دعویٰ ہے کہ شریف خاندان کے خلاف سازش ہے ۔یہ ایسی صورتحال ہے جہاں ٹکرائو کی صورت میں ملک کے اندر بچا کچُھا کوئی نظام اور ادارہ موجود ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے گا ۔ اس بچے کچُھے نظام اور اداروں کا بھرم قائم رکھنے کیلئے ہم آپ کو بائونوں کے جزیرے کی ایک کہانی سناتے ہیں۔ جنہیں ایک مرتبہ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اس کا حل ڈھونڈ لیا، بس کہانی سننے سے پہلے اپنے آپ کو یقین دلالیجئے کہ بائونوں کے جزیرے اور ہمارے ملک میں کوئی مماثلت نہیں،سوائے اسکے کہ استثنیٰ کیا ہوتاہے۔ یہ کہانی ’’ گُتھری‘‘ کی زبانی ہے اور اسکے تمام کردار فرضی لگتےہیں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب1679ء میں برطانیہ میں نئی نئی جمہوریت بادشاہت کے زیر اثر تھی اور پارلیمنٹرین خوف زدہ تھے کہ اُن سے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے بادشاہ سلامت ناراض ہو جائیں ۔اس لئے ایک قانون پاس ہوا کہ پارلیمنٹ میں جو کہا جائے گا اس پر ارکان کو استثنیٰ حاصل ہوگا ، گو آج اس استثنیٰ کے پیچھے کوئی نہیں چھپتا ،برطانیہ کے زیر تسلط بائونوں کا ایک دیس تھا ۔ انہوں نے ایک پارلیمنٹ قائم کی جس میں شہر کا بداخلاق، ملک کے خزانوں کو نکال نکال کر بیرون ملک منتقل کرنے والا اور بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے بلانے والا، حتیٰ کہ ہر وہ شحص اس کا رکن تھا جو کسی نہ کسی بدعنوانی میں ملوث تھا ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنے کالے دھندوں کو قانونی حیثیت دی جائے اور کوئی بھی ایکشن لیا جائے تو اُسے قانونی تحفظ حاصل رہے۔ کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن اسی دیس کے چند مذہبی اور انصاف پسند بائونوں نے محسوس کیا کہ دیس کی اکثریت کا استحصال ہورہا ہے اور بدعنوانوں کےجو دل میں آتا ہے کرتے ہیں، ان کے قوانین کی تشریح کیلئے عدالت قائم کی جائے۔ جب اس عدالت نے بدعنوانیوں کا از خود نوٹس لیا ، گو عدالت کو وکیلوں نے قانون کی موشگافیوں میںالجھائے رکھا مگر پھر بھی پارلیمنٹ کے اندر ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ اب ہمارے صادق اور امین ہونے کا سوال اٹھایا جائے گا ۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ کس کس نے کتنی دولت جمع کی ہے، کتنی جائیدادیں بنائی ہیں، اپنے ملک کی دولت دوسرے ملکوں میں کیسے گئی ، یہاں کی عوام بھوکی مر رہی ہے ، آپ بیرون ملک فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں۔ ہم اپنی دولت کو سفید کیسے ثابت کریں گے ،ہمیں تو عدالت نااہل قرار دے دیگی اور پھر ہماری دکانداری تو ختم، کسی نے تجویز دی کہ ہم سب آپس میں ایک دوسرے کو یہ دولت اور جائیدادیں تحائف میں دے دیتے ہیں۔ کسی نے سوال اٹھایا کہ عدالت پھر بھی ہمیں ڈِس کوالیفائی کرسکتی ہے ۔ ایک نے یہ کہا کہ ہماری پارلیمنٹ میں ہونیوالی تمام کارروائی ایک رپورٹر ’’گُتھری‘‘ چھاپتا رہا ہے۔ اگر یہ سارے اخبارات عدالت میں اُس نے پیش کر دیئے تو عدالت ہمارے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے کیونکہ اب لوگوں میں شعور آنا شروع ہوگیا ہےکہ یہ ہمارے ووٹ کی وجہ سے ایوان میں بیٹھے ہیں ، ایک پارلیمنٹرین نے تجویز دی کہ ایک قانون پاس کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں ہونیوالی تمام کارروائی قومی راز ہیں، اسے ڈسکس نہیں کیا جاسکتا اور پارلیمنٹرین کو ہر اچھی بُری حرکت کرنے کی اجازت ہے اور اسے یہ استثنیٰ بھی حاصل ہے کہ یہ عدالت یا مستقبل میں بننے والی کوئی بھی عدالت اس استثنیٰ پر بات نہیںکرسکتی ۔ لیکن پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا اب معاملہ عدالت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس دیس کا ہر باسی ہمارے خلاف آواز اٹھا رہا ہے، ہمارے ناجائز اقدامات کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں ، لوگ یہ ڈسکس کرتے ہیں کہ یہ سب بد عنوان ہیں، ان کے ڈوب ٹیسٹ کروائے جائیں ، انہیں سزا دی جائے۔ اس کے بعد پارلیمنٹرین نے متفقہ طور پر اس تجویز کو قانونی شکل دی کہ دیس کے اندر جو بھی ایسے سرگرم لوگ ہیںاُن کو پارلیمنٹ کا رکن بنا لیا جائے ،یہ کرنے کے بعد بھی لوگ مطمئن نہ ہوئے تو یہ قانون بنایا کہ آج سے پورا جزیرہ پارلیمنٹ ہے اور جزیرے میں کوئی بھی جو بھی حرکت کریگا اُسے قانونی تحفظ اور ہر طرح کا استثنیٰ حاصل ہوگا ۔ اس جزیرے میں رہنے والے جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے انہیں سمندر میں غرق کر دیا جائیگا۔ اس کے بعد بائونوں کے اس جزیرے میں کچھ’’ امن و امان ‘‘ قائم ہوگیا۔ کیونکہ آواز اٹھانے والوں کی اکثریت کو سمندر کے سپرد کردیا گیا تھا۔ جو بچ گئے اُن کیلئے قانون بن گیا کہ اُن کا اسٹیٹس ارکان اسمبلی جیسا ہوگا، اس طرح سب ایک ہی صف میںکھڑے ہوگئے۔کیا بونوں کے دیس کی کہانی کئی صدیوں بعد دہرائی جائے گی۔ کیا اب تضادات کو ختم کرنے کیلئے وکلا وزیراعظم کیلئے استثنیٰ حاصل کریں گے یا پارلیمنٹرینز کیلئے پورے ملک کو پارلیمنٹ کا درجہ حاصل ہوگا بالکل اُسی طرح جس طرح وزیراعظم ، وزیراعلیٰ کے ذاتی گھروں کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہائوس کا درجہ حاصل ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے سب حکومت کے ساتھ ہوجائیں اور یہ بھی بعید نہیں کہ ملک کو بائونوں کا جزیرہ ڈیکلر کر دیا جائے؟

.
تازہ ترین