• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر پاکستان کاکوئی شہر ہے جہاں اچانک مہمانوں کی بہترین میزبانی کی جا سکتی ہے وہ صرف اور صرف لاہور ہے ۔ جس پر بلا شبہ لاہور کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کااچانک جاتی عمراء رکنا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ اگر نریندر مودی نے رکنے کا یہی فیصلہ اسلام آباد کے لئے کیا ہو تا تو میزبانی اور سفارتی نتائج دونوں مختلف ہوتے۔ نریندر مود ی کا دورہ اگر اچانک نہیں تھا تو کم از کم غیر متوقع ضرور تھا۔ اسی لئے اس اچانک وغیر متوقع د و ر ے پر سب کے تاثرات کم ازکم حیرانی ، دنگ رہ جانے ،ایک دوسرے کو گھورکر رہ جانے جیسے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم کے آنے اور جانے تک سب ہی خاموش رہے۔ٹوئٹر کے ذریعے شور کرنے والا طبقہ بھی خاموش ہی رہ گیا۔ شاید وہ اپنے متعلقہ اداروں سے ہدایات ہی لیتے رہ گئے کہ اس اچانک اور غیر متو قع دورے پر کیا کہاجائے۔ اور ہدایات دینے والے متعلقہ ادارے بھی ہم سب کی طرح کنفیوژن اور الجھن میں ہی رہ گئے۔ اور اسی دوران اچانک مہمان چلے بھی گئے۔ اس طرح انہیں بھر پور مذمت کرنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ دورہ ختم ہو گیا۔ اور پھر اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو گیاکہ اب اس کے بعد کیا ہو گا۔ آگے کیا۔ مجھے علم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر جیسے پرانے مسئلے کا فوری حل ممکن نہیں ہے۔ لیکن کیا ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارت کھول سکتے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت پسندانہ آپشن ہے۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ میں کوئی ماہر معیشت نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی ماہر تجارت۔ لیکن میں سامان اور انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا حامی ہوں۔ اگر مجھے واقعاتی دلیل دینے کی اجازت دی جائے تو میرا ایک دوست جو لکھنے کے آلات بناتا ہے کا موقف ہے کہ اگر اسے اپنی اشیا ء بھارت برآمد کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کے انتخابات جیتنے سے قبل پاکستان کی موجودہ حکومت اور تب کی بھارتی حکومت کے درمیان ایک آزادانہ تجارتی معاہدے پر مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے۔ اس معاہدےپر تب چار وجوہات کی بنا پر دستخط نہ ہو سکے۔ پہلا دو طرفہفوجی دبائو۔ دوسری پاکستانی صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کے دلوں کی تیز دھڑکن، تیسری بی جی پی کی جانب سے ایسے اشارے کے انتخابات اور ان کے نتائج تک اس معاہدے کو روک دیا جائے۔اور چوتھا بین الا قوامی صہیونی سازش نے بھی معاہدے کو رکوا دیا۔
پھر بھی یہ اہم سوال نہیں ہے کہ آزاد تجارت کا معاہدہ دو سال قبل کیوں نہیں ہوا۔ بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس کو اب ہو جا نا چاہئے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ ہاں اب فوری طور پر اس پر عملدرآمد ہو جا نا چاہئے۔ میں نے پہلے ہی اوپر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ میں کوئی ماہر معیشت نہیں ہوں۔ لیکن اس بات کے انتباہ کے با وجود یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں پاکستان میں بین الا قوامی سرمایہ کاری کو لانا ہے، تو بھارت کے سرمایہ کار کو پاکستان میں لا نا پاکستان کے لئے ایک گیم چینجر بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح میری دلیل یہ ہے کہ سر مایہ کار بھی اپنا پیسہ ایسی جگہ لگانا چاہتا ہے ۔ جس کو جا نتا ہو۔ سرمایہ کار کے لئے بڑی بڑی چھلانگیں لگانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے محفوظ قدم بڑھانا آسان اور قابل قبول ہو تا ہے۔ اس وقت ہم جس بین الا قوامی سرمایہ کار کی تلاش میں ہیں یہ بین الاقوامی سرمایہ کار دبئی، سنگاپور، ہانگ کانگ، لندن، نیو یارک یا بیجنگ میں بیٹھا ہے،یہ سب شہر امیر لوگوں کو رہنے کے لئے نہ صرف بہترین مواقع دیتے ہیں بلکہ ان کو اپنا پیسہ خرچ کرنے کا ایک عمدہ ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔ آپ اس سرمایہ کا ر کا اندازہ کریں جو لندن میں بیٹھا ہےہمارا کوئی شہر تواس کے افق پرہو ہی نہیں ہو سکتاسرمایہ کاری تو دور کی بات۔
اب لندن میں بیٹھے ایک مجوزہ سرمایہ کار کا دہلی اور ممبئی میں بیٹھے ایک سرمایہ کار سے موازنہ کرتے ہیں۔ ممبئی والا جب وہاں سے سمندر کی دوسری طرف کراچی کو دیکھتا ہے تو اسے اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ اسے وہی قانون نظر آتے ہیں۔ کام کرنے کا وہی طریقہ۔ وہی رکاوٹیں جن سے نبٹنے کا وہ عادی ہے۔ اور وہی معاشرتی نیٹ ورک۔ اور اسی طرح دہلی والے بین الا قوامی سرمایہ کار کو بھی پاکستان لانے کے لئے اس سرمایہ کار کی نسبت جو وال اسٹریٹ جنرل میں ہے کم قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ایک قیاس کو استعمال کیا جائے تو خلاء سے باہر نکلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کشش ثقل ہے۔ اگر آپ ایک دفعہ خلاء سے نکلنے میں کا میاب ہو جائیں تو ایک مدار سے دوسرے مدار میں جانا نسبتا آسان لگتا ہے۔ اسی طرح پیسے کو اس کے اصل مالی مرکز سے باہر لانا بہت مشکلہوتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ سرمایہ اپنے اصل مرکز کی کشش ثقل سے باہر آجائے تو تو اسے تیسری دنیا کے ایک ملک سے دوسرے ملک لیجانا مشکل نہیں ہو تا۔ سادہ بات یہ ہے کہ اگر آپ بھارت کے ساتھ تجارتی و سرمایہ کاری کی سرحدیں کھول دیں گے تو سرمائے کو آپ کے ملک اڑ کر نہیں آنا پڑے گا۔ بلکہ یہ چل کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تا آپ کے ملک پہنچ جائے گا۔ اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ایک وسیع سماجی مسئلہ بھی ہے۔ دونوں جانب ایک خوف موجود ہے۔ جس کی بنیاد گزشتہ 68 سالہ دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسیاں ہیں ۔ہمارے ہاںایک یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم پاکستانیوں کو بھارت کے بہت قریب جانے کا موقع دیا گیا تو ہم بھی ہندوئوں کی طرح سبزی کھانے والا ملک بن جائیں گے۔ یہ ایک فضول خوف ہے۔ مسلمانوں نے 1200 سال ہند وئوں کے ساتھ رہنے کے بعد ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ اگر ایک ہزار سے زائدسال اکٹھے رہنے کے بعد بھی ہم نے اکٹھے نہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ تو کیا صرف بھارتیوں کے لئے ویزہ اور سفری سہولتیں کھولنے سے فرق پڑجائےگا؟ یہ درست ہے کہ ہماری عملی سرحدیں اپنی جگہ قائم ہیں۔ لیکن کیبل ٹی وی اور انٹر نیٹ نے ثقافتی رکاوٹوںاور سرحدوں کو پار کر لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی اپنی شناخت ہے۔ پاکستان اور بھارت کی الگ الگ زمین ہے۔ ان کی فضائی حدود بھی الگ الگ ہیں۔ اور کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ سب کچھ ویسے ہی قائم ہےاور رہے گا۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ پاکستانی گھریلو خواتین روزانہ چھ گھنٹے تک بھارتی ساس بہو کے ڈرامے دیکھتی ہیںہم لوگ بھارتی فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جیتے اور مرتے پاکستان کے لئے ہیں۔ میں پہلے بھی اعتراف کر چکا ہوں کہ میں پاکستان کے علاوہ اپنے لئے کسی وطن کو نہیں جا نتا۔ اور میری طرح کے دیگر کئی پاکستانی بھی پاکستان کو ہی اپنا وطن مانتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میرا کرناٹکہ میں شاپنگ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ میرا دل بھیر پوری کھانے کو بھی چاہتا ہے۔ میرا دل اتر پردیش میں اپنے دوست سمنت بترہ کے ہوٹل میں رہنے کو بھی چاہتا ہے۔ لیکن اس سب کے بعد میں اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتا ہوں۔ مجھ پر اعتماد کریں۔ ایسا ہی ہے۔
تازہ ترین