• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ جھوٹ کا فیصلہ باقی، سپریم کورٹ، جھوٹ ثابت کرنے کیلئے سچ سامنے لایا جائے،پاناما کیس میں ججوں کے ریمارکس

اسلام آباد ( ایجنسیاں/نمائندہ جنگ) پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سچ جھوٹ کا فیصلہ باقی ہے، جھوٹ ثابت کرنے کیلئے سچ سامنے لایا جائے، وزیر اعظم کے وکیل نے قانونی نکات کے انبار لگادیئے، ثبوت کوئی نہیں دیا،جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے وکیل توفیق آصف کو دوسری سماعت کے دوران بھی فاضل ججز کے تندو تیزسوالات کا سامنا کرنا پڑا، ایک موقع پر فاضل ججز نے جماعت اسلامی کے وکیل یوفیق آصف سے پے در پے سوالات کیے تو انہوں نےکہا کہ میں ایک وقت میں ایک سوال کا جواب دے سکتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ پانچ رکنی بنچ ہے، یہاں ایسے ہی سوالات پوچھے جاتے ہیں، لگتا ہے آپ باتیں دہرا کر سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں، آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں،ہمارے سوالات کے جواب دیں، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دئیے ہم سوالات صرف سمجھنے کیلئے پوچھتے ہیں، عدالت کے سوالات فیصلہ نہیں ہوتے۔جھوٹ کو جانچنے کیلئے عدالت کہاں تک جاسکتی ہے یہ جانچنے کیلئے اصول بنانا پڑیں گے،سڑکوں پر بہت کچھ کہا گیا لوگ اپنا تبصرہ پاس رکھیں اور  فیصلے کا انتظار کریں،جو ریکارڈ وزیر اعظم نے دینا تھا دے دیا جو نہیں دیا اس کا قانونی اثر کیاہے اس کوبھی دیکھا جائے گا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اسپیکر کے پاس رولز معطل کرکے کوئی اور کارروائی کا اختیار نہیں، جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا  وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کردی گئی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نےتوفیق آصف سے کہا کہ نواز شریف کا موقف ہے کہ ان کا نام پاناما میں کسی جگہ نہیں۔ پھر آپ نواز شریف پر پاناما پیپر پر کیسے ذمہ داری ڈال سکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سارے حکومتی وزراء پاناما لیکس ایشو کا دفاع کر رہے ہیں۔ جس نے جو برا بھلا کہنا تھا عدالت کے باہر کہہ دیا ۔ سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا اب فیصلے کا انتظار کیا جائے۔وزیر اعظم کے وکیل نے ثبوتوں کا ذکر ہی نہیں کیا ۔ قانونی نکات کا انبار لگا دیا۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے پھر بھی ساری حکومت پاناما کا دفاع کر رہی ہے ۔ کیس کی سماعت پیر کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل‘ جسٹس گلزار احمد ‘ جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف آج بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے میڈیا پر تاثر ملا کہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سوالات سمجھنے کے لئے پوچھتے ہیں سوالات فیصلہ نہیں ہوتے ۔ کیا وزیر اعظم کی تقریر پارلیمانی کی کارروائی کا حصہ تھی اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی ۔ استحقاق آئین اور قانون کا بھی دیا جا سکتا ہے جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ رولز معطل کر کے کوئی اور کارروائی کرے۔ کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے ذاتی وضاحت دینا تھی تو ایجنڈا میں شامل ہونا ضروری تھا جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا اس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا۔ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی ۔ وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جوابات میں تھی۔ جس جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی تو کیا آپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہنا چا رہے ہیں کہ اسپیکر وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دینا چاہئے تھی۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کر دی گئی ہے جس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے مگر استحقاق حاصل نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا عمران خان نے اس تقریر کا ریکارڈ لگایا ہے وہ غلط ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ممکن ہے کہ ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔وزیر اعظم کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر اردو زبان میں تھی ۔ توفیق آصف نے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کی جمع کرائی تقریر کو درست مان لیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے وکیل نے ثبوتوں کا ذکر ہی نہیں کیا ،قانونی نکات کا انبار لگا دیا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ باتیں دہرا کر سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ بتائیں کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کیا چھپایا ہے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تقریب اپنی تقریر میں پیش کی ہے۔ توفیق آصف نے کہا کہ وزیر اعظم کے دفاع کے لئے وزراء عدالت آ رہے ہیں حکومتی مشینری اس کا دفاع کر رہی ہے۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے اب سب لوگ فیصلے کا انتظار کریں۔کیس کو چلنے دیں۔ سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جو ریکارڈ وزیر اعظم نے دینا تھا دے دیا جو نہیں دیا اس کا قانونی اثر کیا ہوتا ہے اس کو ہم دیکھیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نواز شریف کا موقف ہے کہ ان کا پاناما کیس میں کسی جگہ نام نہیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جس پر شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے پہلے سچ ثابت کرنا پڑتا ہے ۔ سچ ثابت کرنے کے لئے انکوائری کرنا ہوتی ہے۔اگر کسی نے غلط بیانی کی ہے تو ہم نے قانون کے مطابق طے کرنا ہے۔جب حقیقت کا پتہ ہی نہیں چلا تو جھوٹ کا تعین کیسے ہوگا۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے جعلی ڈگری کیس کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ 2004 میں میاں شریف کی وفات سے قبل تک وہ بزنس دیکھتے رہے وزیر اعظم کا تعلق کیسے بنتا ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم یہ قرار دے چکے ہیں کہ عدالت یہ مقدمہ آرٹیکل 184 / 3 کے تحت سن سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شریف خاندان کہتا ہے کہ کاروبار میاں شریف کا تھا اس پر وزیر اعظم کا تعلق ثابت کریں۔ جماعت اسلامی وکیل نے دلائل میں کہا کہ رقم دبئی سے جدہ جانے کا ریکارڈ موجود نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیر اعظم نے آپ کو ہدایت دی ہے جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم باہر ہیں آج واپس آ جائیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جتنا جلدی ہو جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ انکوائری کا کونسا طریقہ اپنائے۔توفیق آصف نے کہا کہ ثبوت اس نے دینے ہیں جس پر الزام ہے وزیر اعظم نے خود کہا کہ ثبوت ہیں لیکن نہیں دے رہے۔ وزیر اعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کر دیں اور قوم کو اس امتحان سے نکالیں۔ حضرت عمرؓ بھی عدالت میں پیش ہوئے لیکن انہوں نے بھی استثنی نہیں مانگا۔ یہاں روز وزیر اعظم استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل کیا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ این آر او کیس میں فیصلہ آیا تو عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس ہوا۔ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا گیا۔ نااہل کرنے سے پہلے گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود تھا کیا کسی خاندان کی زندگی کے بارے میں آرٹیکل 19 -A لگایا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےتوفیق آصف سے کہا کہ آپ ہمیں مطمئن کریں کہ وزیر اعظم نے کاغذات نامزدگی میں کیا چھپایا ؟ آپ نے اپنے مقدمے میں غلط روٹ اپنایا ہوا ہے جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کی کوشش کر رہا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپنی گزارشات پر ڈکلریشن چاہتے ہیں جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ بالکل چاہتا ہوں۔نواز شریف کے دونوں بیانات میں تضادات ہیں۔ قطری خط نواز شریف کے بچوں نے پیش کیا۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کیا ۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق بارے ثبوت شریف خاندان پر ہیں۔ یہ باتیں ہو چکی ہیں عدالت نے کیس کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی ۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
تازہ ترین