• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اپنے قیام کے پہلے ہی دن سے پوری دنیا کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر کاربند اور دنیا کے تقریباً ہر شورش زدہ خطے میں قیام امن کی بین الاقوامی کوششوں کا حصہ رہا ہے۔ اس حوالے سے وہ امریکہ کا ہمیشہ سے اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے اس لئے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار تاریخی حقائق کی روشنی میں قابل فہم ہے اور ان کی یہ توقع بھی بجا ہے کہ مستقبل میں امریکہ سے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وقت کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایجنڈے کے تحت ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے نعرےکے ساتھ دینا کو کس سمت میں اور کہاں لے جائیں گے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے عالمی امن، اسلام، دہشت گردی، لسانی، نسلی اور صنفی تعصبات، پرانے اتحادیوں سے تعلقات مضبوط بنانے اور نئے اتحادی تلاش کرنے، امریکہ میں تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کا داخلہ روکنے، عالم اسلام کے سینے میں گھونپے جانے والے خنجر اسرائیل کی حمایت اور بین الاقوامی اہمیت کے کئی دوسرے موضوعات پر کسی کی پسند یا ناپسند کی پروا کئے بغیر روایتی لیپا پوتی کی امریکی پالیسی سے ہٹ کر جو کچھ دل میں تھا بلا کم و کاست کھل کر بیان کر دیا۔ اس پر اندرون اور بیرون ملک ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے اور اب تک دنیا کے 673شہروں میں 20لاکھ سے زائد افراد ان کے ایجنڈے کی مذمت میں سڑکوں پر آ چکے ہیں توقع تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ نرمی اختیار کریں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپنے نظریات میں معقولیت لانے پر وہ قطعاً تیار نہیں۔ اس سلسلے میں مشرقی بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی بستیوں کی تعمیر کی حمایت ان کا پہلا قدم ہے حالانکہ سلامتی کونسل اس کے خلاف قرارداد منظور کر چکی ہے پاکستان کے مقابلے میں ان کا جھکائو بھارت کی طرف واضح طور پر نظر آ رہا ہے لیکن انتخابی مہم کے دوران پاک بھارت تعلقات پر رائے زنی کرتے ہوئے انہوں نے تنازع کشمیر کے حل کے لئے کردار ادا کرنے کا جو عندیہ دیا تھا وہ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے لئے ایک خوش آئند بات تھی ساری دنیا جانتی ہے کہ جموں و کشمیر کا تنازع پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں واحد بڑی رکاوٹ ہے۔ سابقہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے چشم پوشی اور بھارت کی درپردہ ہمنوائی پاکستان کے لئے شدید حیرت کا باعث ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تعینات اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین کو تو کام کرنے سے روک رکھا ہے مگر اسرائیلی مشن کو سرینگر اور کنٹرول لائن کے دورے کر وارہا ہے تاکہ کشمیری حریت پسندوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔ بھارت حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے کر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لئے صدر ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ٹرمپ کو کشمیر میں ہندو انتہا پسندوں، فلسطین میں یہودیوں، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شدت پسند بودھوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں دوسرے مذاہب اور نسل کے ہتھیار بند گروہوں کی کارروائیوں کے مقابلے میں صرف ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ ہی نظر آتی ہے حالانکہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے۔ اس کا کوئی مذہب نہیں۔ نئے امریکی صدر اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل میں کردار ادا کریں اور کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلائیں تو اس خطے کے پونے دو ارب انسانوں کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے اور پاکستان اور بھارت اور کئی طرح کے اختلافات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی استحکام آ سکتا ہے۔ نواز شریف نے درست کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان جیسا نقصان نہیں اٹھایا، صدر ٹرمپ کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی سمیت دنیا میں ہر قسم کی دہشت گردی کے متعلق یکساں رویہ رکھنا چاہئے۔

.
تازہ ترین