• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورے پاکستان میں لا اینڈ آرڈر اور امن و امان کا جائزہ لیں تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ فورس بنائے بغیر دہشت گردی اور بڑے جرائم کی روک تھام ممکن نہیں۔ یہی فورس دیرپا امن کی ضامن ہے۔ پولیس پر بڑی حد تک سیاسی رنگ غالب ہے اور صوبہ سندھ میں تو امن و امان کی زیادہ تر ذمہ داری رینجرز ادا کرتے ہیں۔ جب کبھی جرائم کی کثرت اور مجرموں کوزیرحراست لانے اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنےکے بارے میں حقائق کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گھنائونے جرائم کے مجرم بالعموم پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ ایک پروفیشنل پولیس کا بنیادی مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ ملک کے کونے کونے میں امن و امان قائم رکھے ۔ سعودی عرب کی پولیس کا سلوگن ہے ’’جاگتی آنکھیں ‘‘ اور اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ ہم جاگتے ہیں تاکہ آپ آرام و سکون کی نیند سوسکیں۔ سابق سینئر پولیس افسران کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کی پولیس بالعموم سیاسی حکمرانوں اور سیاستدانوں کےاثر و رسوخ سے آزاد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کو ٹاسک سونپنے کا سارا کام ایک حکومت ہی انجام دیتی ہے تاہم اگر کسی حکومت کی ترجیح خدمت ِ عوام کی بجائے اپنا پروٹوکول اور اپنی من مانی ہو تو پھر پولیس اپنے فرائض کماحقہٗ ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ پنجاب پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں بہت اضافہ ہوا ہے اور لا اینڈ آرڈر قائم کرنے کے لئے ترقی یافتہ دنیا کی طرح تیزرفتار پولیس فورس بھی متعارف کروائی گئی ہے مگر پنجاب پولیس کے بارے میںیہ تاثر عام ہے کہ یہ پروفیشنل ترجیحات کی بجائے حکومت کی سیاسی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے۔ اس سلسلے میں سانحہ ماڈل ٹائون کی انکوائری کی مثال دی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں پولیس سے صرف اور صرف امن و امان کے قیام کا کام لیںاور اسے سیاسی و پروٹوکول ڈیوٹیوں کے دبائو سے مکمل طور پرآزاد رکھیں۔

.
تازہ ترین