• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدنصیبی اور بدبختی کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ غیر مسلم مغربی حکمرانوں کے رویے دیکھ کر اپنے خلفائے راشدین یاد آتے ہیں اور خود اپنے حکمرانوں کے کرتوت، حرکتیں اور رویے دیکھ کر فرعون یاد آتے ہیں۔ امریکہ جیسی سپرپاور کے سابق نائب صدر جوبائیڈن کو اپنے بیٹے کا علاج کرانے کیلئے اپنا گھر سیل پر لگانا پڑا، ادھر ٹروڈو جونیئر کینیڈا میں صرف اس ’’جرم‘‘ کا سامنا کر رہا ہے کہ اس نے تعطیلات اپنے مرحوم والد کے دوست آغا خان کے گھر گزاریں اور اس کا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا۔مہذب اور باعزت دنیا کے حکمرانوں کی ایسی ہی دیگر ان گنت مثالوں کے مقابل اگر ان کا جائزہ لیں جو ہمیں جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں تو سوائے تلوروں، پانامائوں، جوئے خانوں، بیش قیمت کسٹم میڈ گاڑیوں، عالیشان محلات، عیاشانہ بحری جہازوں کی خریداری وغیرہ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن ہم ان تمام حقائق کے باوجود اس پروپیگنڈے پر سر دھنتے رہتے ہیں کہ ہمارے خلاف ’’سازش‘‘ ہو رہی ہے حالانکہ عالم اسلام کو اپنے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے کسی دشمن یا سازش کی ضرورت نہیں ۔ پنجاب کے حکمرانوں کا تکیہ کلام ہے ’’ترقی ‘‘ اور ’’گڈ گورننس‘‘ جبکہ حالت یہ ہے کہ ’’گڈگورننس ‘‘ کے مارے ہسپتالوں میں دل کے مریضوں کے سینے پھاڑ کر اندر دونمبر ’’سٹینٹ ‘‘ ڈال دیئے جاتے ہیں اور ایسی روشن مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ’’سٹینٹ ‘‘ سرےسے ڈالا ہی نہیں گیا۔سرجری کے کچھ عرصہ بعد چیک اپ کے دوران انکشاف ہوا کہ اندر کچھ نہیں تو درندگی کی یہ انتہا اس لئے نہیں کہ ہم جماندرو جرائم پیشہ ہیں جو قبروں میں مردوں کو اور ہسپتالوں کے بستروں پر مریضوں کو بھی نہیں بخشتے۔نہیں بخدا ہرگز نہیں۔ ایسے وحشی، بے حس، کٹھور اور سنگدل نہیں تھے ہم لوگ، یہ سفاک ترین حکمرانوں کی ’’صحبت بد ‘‘کا بھیانک ترین نتیجہ ہے۔ حکمرانوں کے اعمال ہیں جنہوں نے عوام کو اس انداز میں انسپائر کیا کہ پیسہ بنانے کیلئے کچھ بھی کر گزرو، سب جائز ہے۔بظاہر آپ کو محسوس ہو گا کہ میں کہاں کی بات کہاں جوڑ رہا ہوں تو ایسا نہیں ہے ۔حکمران’’ رول ماڈل ‘‘ ہوتے ہیں۔ عوام نے شعوری یا لاشعوری طور پر بالآخر ان کے پاک یا ناپاک قدموں پر ہی چلنا ہوتا ہے ۔جب ایک ’’سرے محل ‘‘ یا ’’پارک لین‘‘ سامنے آتا ہے تومعاشرہ کے محل کی بنیادیں ہلنے اور چھتیں کانپنے لگتی ہیں۔جب حکمرانوں کی لوٹ مار زبان زدعام ہو جائے تو عوام بھی تمام تر اخلاقیات بالائے طاق رکھ کر اپنی اپنی چھریاں تیز کر لیتے ہیں۔تم کمیشن کک بیک کھائو ہم کم تول کر اپنا رانجھا راضی کر لیں گے۔تم ملکی خزانے میں نقب لگائو ہم ہسپتالوں میں اپنے مریضوں کے سینے چاک کرکے اندر نقب لگائیں گے۔تم ناجائز جائیدادیں بنائو ہم ناجائز قبضے کریں گے چاہے یہ قبضہ چھابڑی جتنی جگہ پر ہی کیوں نہ ہو، تم ایس آر او (SRO)تبدیل کرکے واردات ڈالو گے تو ہم بھی اصلی کو نقلی اور جعلی سے تبدیل کرکے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرکے رہیں گے، تم جھوٹے حلف اٹھائو ہم جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔عوام اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور آج یہ پورا معاشرہ اس کا جیتا جاگتا زندہ ثبوت ہے۔شادی کی تقریب میں بحث سوپ سے کہیں زیادہ گرم تھی جب پی ٹی آئی کے ایک ہمدرد یا کارکن نے کہا ’’میاں شریف مرحوم7بھائی تھے ۔اکٹھے کام کرتے تھے،پھر ان کی اولادیں جوان ہوئیں تو خوش اسلوبی سے سب اپنا اپنا حصہ لیکر علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔سب بھائیوں کی اولادوں نے ترقی کی لیکن ا ن سب میں سے صرف ایک ہی ایسا کیوں ہے جس کی دولت پوری دنیا میں سیاحت کرتی پھر رہی ہے ۔یہاں تک کہ اس کا چھوٹا بھائی تک بھی اس کا عشرعشیر نہیں تو تم لوگوں کو پھر بھی بات سمجھ نہ آئے تو دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔’’اول یہ کہ تمہارا سکریوڈھیلا ہے اور دوسرا یہ کہ تمہارا کیریکٹر ڈھیلا ہے‘‘فلک شگاف قہقوں میں ن لیگیئے بھی شامل تھے۔

.
تازہ ترین