• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جدید امریکہ کی سوا تین سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صدارتی انتخاب کے نتائج سے پورا ملک اور اتحادی بوکھلائے ہوئے ہیں اور ان میں کھلبلی مچ گئی ہے‘ نہ جیتنے والوں کو اس جیت کی امید تھی نہ ہارنے والے اس کی توقع کرتے تھے۔ ٹرمپ کے جیتنے میں ’’ایف بی آئی‘‘ نے پراسرار مگر اہم کردار ادا کیا‘ ایف بی آئی امریکہ میں اندرون ملک سیکورٹی کا سب سے بڑا اور طاقت ور ادارہ ہے‘ جو سی آئی اے کے بعدسب سے طاقتور خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی غیرمعمولی مدد اور تعاون کے بعد ٹرمپ ٹیکنیکل بنیادوں پر جیت گئے لیکن مقبولیت میں ان کی حریف نے بیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں سب سے بڑی اور امیر ریاست کیلی فورنیا میں امریکہ سے علیحدگی کی توانا آوازیں سنائی دینے لگیں‘ ملک بھر میں انتخابی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 2نومبر سے 8نومبر کے دوران منگل کے دن صدارتی انتخاب منعقد ہوتا ہے اور 20 جنوری کو صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر منصب صدارت سنبھال لیتا ہے۔ منتخب ہونے سے عہدہ سنبھالنے کی درمیانی مدت اڑھائی مہینے ہوتی ہے۔اس دوران صدر کو ملک کی سیکورٹی‘ اندرونی حالات‘ دفاع‘ خارجہ امور‘ دیگر ضروری امور سے آگاہی کیلئے بریف کیا جاتا ہے۔ صدر کی تقریب حلف وفاداری اور عہدہ سنبھالنے کا دن بڑا خاص ہوتا ہے۔ حلف برداری کی تقریب میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں‘ ممبران پارلیمنٹ‘ ریاست کے اہم عہدیدار‘ مختلف شعبوں کے منتخب لوگ اور غیرملکی وفود کے علاوہ عوام کاجم غفیر ان تقاریب میں شامل ہوتا ہے۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس خواتین او رنوجوان امریکیوں کاجوش و خروش امریکہ کو جوش و مسرت سے بھر دیتا ہے‘ مگر اس دفعہ ا یسا کچھ نہیں ہوا‘ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے مقابلے میں اسی شہر یعنی واشنگٹن میں احتجاج کرنے والی خواتین (جن میں کانگریس کی ممبران بھی شامل تھیں) کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی پچاس ریاستوں میں چار سو (400) مقامات پر احتجاجی جلوس نکالے گئے‘ نہ صرف امریکہ بلکہ امریکہ کے اہم اتحادی دوست ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے جو دو دن گزرنے کے بعد اب تک جاری ہیں۔
امریکیوں کے اس اہم تاریخی دن کے پھسپھسے اور مایوس کن ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر باراک اوباما کی تقریب حلف وفاداری میں چار لاکھ سے زیادہ لوگ شریک تھے‘ چوٹی کے ملکی اور غیرملکی فنکاروں کی پرفارمنس نے ان تقاریب کو چار چاند لگا دیئے تھے مگر ’’ٹرمپ‘‘ کے ان تقاریب میں شریک لوگوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ نہیں تھی‘ بڑے فنکاروں نے اس میں شرکت سے انکار کیا‘ تقریب میں شریک دس ہزار افراد کے مقابلے میں ’’کیپٹل ہل‘‘ کے سامنے احتجاج کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اگلے دس بیس برس امریکہ کاصدر کوئی بھی ہو‘ اوباما جیسا محتاط یا جارج بش جیسا عاقبت نااندیش‘ وہ بش جونیئر کے پیدا کردہ اندرونی مسائل اور عالمی بحرانوں سے نکلنے میں صرف ہوجائیں گے۔ امریکہ کی معیشت اور فوجی طاقت کا افغانستان اور عراق کی جنگوں نے بھرکس نکال دیا ہے‘ اس کے اتحادی فاصلہ پید ا کر رہے ہیں اور حریف پہلے سے زیادہ طاقتور‘ امیر‘ منظم اور مؤثر ہو چکے ہیں‘ امریکہ کے مقابلے میں ان کا عالمی سیاست میں اثر ورسوخ روز افزوں ہے‘ ایسے میں مجسم جہل مرکب‘ بداندیش اور تضادات سے بھرا ہوا امریکی صدر اپنے ملک کو کس حال میں پہنچائے گا‘ شاید یہ روس کے گوربا چوف سے بدتر نہ ہو مگر نااندیش جارج بش سے بدتر ضرور ہوگا۔ بہت محتاط تجزیے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اجزائے ترکیبی‘ لاعلمی‘ ناتجربہ کاری اور محاذ آرائی سے مرکب ہیں‘ اپنے ملک کے دو طاقتور اداروں(پریس اور سی آئی اے) کے ساتھ اپنی مرضی سے اور بلاضرورت محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے۔ ان کے دور صدارت کی اولین خواہش تھی کہ ان کی صدارت کے پہلے دن کی تقریب میں جنوبی کوریا کی طرح فوج‘ ٹینک اور میزائلوں کے ساتھ واشنگٹن کی سڑکوں پر مارچ کرے لیکن فوج نے ان کی خواہش کو مسترد کر دیا‘ اس انکار کے بعد فوج کے بارے میں بھی ان کے منفی خیالات بے لگام ہو سکتے ہیں۔ اپنی اولین صدارتی تقریر میں اشرافیہ پر تنقید کی اور کہا کہ واشنگٹن کی اشرافیہ کے حالات گزشتہ برسوں میں بہتر سے بہترین ہو گئے ہیں لیکن غریبوں کی حالت خراب تر ہوتی جا رہی ہے‘ اس بھاشن کے بعد جو پہلا حکم نامہ جاری کیا‘ وہ صدر باراک حسین اوباما کا جاری کردہ ہیلتھ کیئر پروگرام منسوخ کرنا تھا، حالانکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کیلئے صحت کی یہ واحد سہولت تھی جو سبکدوش صدر کا بہترین تحفہ قرار دی جا سکتی ہے۔ نیٹو کے مسئلے پر یورپ سے محا ذآرائی اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ ہمسایہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا عندیہ‘ چین کے ساتھ تجارتی تنازعات کھڑے کرنے کا اشارہ‘ امریکی سفارتخانے کو ’’تل ابیب‘‘ سے بیت المقدس منتقل کرنے کا ارادہ اور ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی تنسیخ پوری مسلم دنیا کومشتعل کر دے گا‘ امریکہ کے حامی حکمران شاید اس کی تاب نہ لا سکیں‘ حال ہی میں نیٹو کے 43ممالک کی فوج اور اتنے ہی اتحادیوں کی مدد کے باوجود افغانستان سے دھول چاٹ کے نکلے اور عراق بھی خالی کرنا پڑا۔ ’’ملٹری ٹائم‘‘ نے لکھا ہے کہ ان جنگوں پر امریکہ پانچ کھرب (پانچ ٹریلین) ڈالر خرچ کر چکا ہے‘ نہیں معلوم ا بھی مزید کیا کچھ خرچ کرنا پڑے ‘اور ’’ٹائمز‘‘ کی ٹائٹل ا سٹوری ہے کہ آج امریکہ کا ہر فرد‘ عورت‘ بچہ 43ہزار ڈالر کا مقروض ہے اور امریکہ بیرونی قرضہ تقریباً 14 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے‘ اس سال یہ مجموعی قرضہ (اندرونی‘ بیرونی) 21کھرب ہو جائے گا‘ یہ سارا قرضہ امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار کا 104فیصد ہے۔یہ پوری دنیا کے 100بڑے مقروض ملکوں کے مجموعی قرض سے بھی زیادہ ہے۔مشہور دانشور اورکالم نویس ’’ایرک مارگلس‘‘ (Eric Margolis ) لکھتے ہیں کہ امریکی حکومت کی طرف سے خرچ ہونے والے ہر ڈالر میں آدھا ڈالر قرض سے حاصل ہوتا ہے۔ ان حالات میں گزشتہ تین راتوں سے ہمارے ٹی وی چینلز پر نمودار ہونے والے ’’بعض چھوٹی کھوپڑیوں کے بڑے دانشور‘‘ پاکستانی قوم کوخوفزدہ کرنے کے مقدس مشن میں مصروف ہیں کہ ’’نئے امریکی صدر نے کہا کہ وہ دنیا بھر سے اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیں گے۔‘‘ کیا دنیا بھر میں اسلامی دہشت گردی پاکستان کاکیا دھرا ہے یا امریکی شرارتوں اور حماقتوں کا شاخسانہ ہے؟ اگر دہشت گردی ختم ہوجائے اور دنیا پرامن بن جائے تو پاکستان کیلئے اس سے زیادہ اطمینان اور خوشی کس چیز سے ہو سکتی ہے‘ اگر امریکہ اس کارخیر کو اپنے ذمہ لیتا ہے تو پاک فوج دہشت گردوں کے پیچھے خوار ہونے سے بچ جائے گی‘ اربوں ڈالر اور ہزار ہا جانوں کی قربانی بھی نہیں دینا پڑے گی۔ تھوڑے علم کے بزدل واعظ خاطر جمع رکھیں‘ پاکستان پر اگر پابندیاں لگتی ہیں تو یہ پہلی بار نہیں ہوگا‘ جب امریکی امداد بند رہی تب بھی ہم زندہ تھے‘ اب بھی رہیں گے‘ آج بھی پاکستان امریکہ سے مالی امداد اور اسلحہ حاصل نہیں کررہا‘ آج بھی امریکہ‘ انڈیا اور اسرائیل ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں تو کل بھی رہیں تو ہمارا کچھ زیادہ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے امریکہ کو ’’خدائی طاقتوں‘‘ پر کوئی اجارہ نہیں مل گیا کہ وہ سب زیر و زبر کر تا جائے‘ نہ ہی سارے امریکی اور ان کے ادارے پاگل ہو گئے ہیں کہ کسی احمق کی بڑبڑاہٹ پر فوجیں دوڑا دیں‘ میزائل داغنے لگیں ‘ نئے صدر کے چار سال اندرون ملک جاری محاذ آرائی پر خرچ ہونے والے ہیں‘ باہر دنیا کیلئے ان کے پاس وقت ہوگا نہ ہوش۔ اوباما کے جانے اور ٹرمپ کے آنے سے سوائے ایوان صدر اور مختلف ریاستی اداروں ا ورنسلی طبقوں کی محاذ آرائی بڑھ جانے کے اور کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔

.
تازہ ترین