• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے لئے طے کردہ بہت سے اہداف میں سے پاکستان کے لئے سب سے اہم وہ اعلان ہے جس میں اُنھوںنے مذہب کے نام پروجود میں آنے والی انتہا پسندی اور جنونیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا۔ اُنھوںنے اسے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کانام دیا ہے۔
اگرچہ اپنے بلند و بالا مقاصد کا اعلان کرتے ہوئے وہ اپنے پیش روئوں سے کسی طور پر مختلف دکھائی نہیں دئیے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ عزم، جو اُنھوںنے اپنی انتخابی مہم کے دوران بلاتکان ارزاں کیا تھا، کو افتتاحی تقریر کا حصہ بناتے ہوئے اُنھوںنے اس کی اہمیت کا احساس دلادیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وعدے کی سنجیدگی اپنی جگہ پر، لیکن اب سوال اسے عملی جامہ پہنانے کا ہے۔ اس ضمن میں پلاننگ کا مرحلہ بھی کم و بیش طے ہوچکا، جبکہ واضح پالیسی بھی موجود ہے۔ اس سے ہمارے وطن کو ایک سے زیادہ حوالوں سے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ واشنگٹن اور ماسکو کا مربوط تعاون مشرق ِوسطیٰ میں داعش کو شکست سے دوچار کرنے کے عمل کو تیز تر کردے گا۔ چونکہ اُس خطے میں ایسے گروہوں اور افراد کے لئے جگہ تنگ ہورہی ہے، چنانچہ دہشت گرد گروہ چھپنے کے لئے مناسب جگہوں کی تلاش میں ہوں گے تاکہ وہ خود کو دوبارہ منظم کرتے ہوئے تقویت دے سکیں۔ جیسا کہ ہمارا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایسی ’’نئی آباد کاری‘‘ یا تو اُنہیں افریقہ کی طرف لے جاتی ہے یا وہ دنیا کے ہمارے حصے میں، جہاں اُنہیں پاکستان دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا قریبی تعاون حاصل رہتا ہے، اور وہ سہولت فراہم کرنے کے عوض اُن کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
یہ گروپ افغانستان اور فاٹا، گزشتہ ہفتے پاراچنار میں ہونے والا حملہ دہشت گردی کے نئے باب کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اور اس خطے کے شہری علاقوں میں سرایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس عمل میں اُنہیں انڈیا، افغانستان، اور حتیٰ کہ امریکہ کی مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہاں امریکہ کی چین کے ساتھ محاذآرائی میں شدت، اور ٹرمپ بیجنگ کے ساتھ نئی سرد جنگ کی حدت بڑھا نے میں کسی تامل کا مظاہر ہ نہیں کریں گے۔ اپنے ساتھ نئی نفرت اور سفاکیت لانے اور نام نہاد اسلامی خلافت کے قیام کا خواب رکھنے والے یہ گروہ درجنوں کی تعداد میں مقامی ہم خیال گروہوں اور افراد کو ساتھ ملا کر ایک نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ یاد رہے، ہر سطح پر کی جانے والی تمام ترتردیدکے باوجود اس خطے سے داعش نوجوانوں کو بھرتی کررہی ہے۔ اس مقصد کے لئے رقم، نظریات اوربعض صورتوں میں صرف ہدایت نامہ ہی کافی رہتا ہے کیونکہ نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے کسی مقامی گروہ کو ایسی شدت پسند تنظیم کے ساتھ وابستگی کی دعوت کے لئے ’’نئے حلف نامے ‘‘ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ گروہ اپنی سرگرمیاں ایسی تنظیم کے حوالے کرکے ’’قابل ِقدر اثاثہ‘‘شمار ہوسکتاہے۔
یہ صورت ِحال مقامی خطرے کو عالمی جہت عطاکر دیتی ہے۔ اس سے کسی بھی ملک، بشمول پاکستان، کے لئے اس موقف پر اصرار کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اپنی سرحدوں کے اندر پیش آنے والے واقعات اُس کے داخلی معاملات ہیں، چنانچہ وہ کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ان سے نمٹ سکتا ہے۔چنانچہ اس پس ِ منظر یہ خطرہ بڑھ چکا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے پیش روئوںکی نسبت زیادہ جارحانہ طرز عمل اپنا کر پاکستان کی سرحدوں کے اندر اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ ایسے بہت سے اشارے دکھائی دیتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ اپنی مرضی سے اہداف پر خود، یا اپنے علاقائی بازو، جیسے انڈیا، کے ذریعے انتہا پسندوں پر حملہ کرنے کی پالیسی میں تیزی لانا چاہتی ہے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے نئے حکمرانوں کے درمیان ہونے والے ابتدائی غیر سرکاری رابطے میں ’’پاکستان کی سرزمین سے کام کرنے والے گروہوں‘‘ کے بارے میں سوال اٹھایا گیا۔ افغانستان میں موجود امریکی کمانڈروں نے بھی بہت واضح الفاظ میں ایسے گروہوں کی سرحد پار سے ہونے والی سرگرمیاں روکنے کی بات کی ہے۔
اس صورت ِحال میں ہمارا رد ِعمل یہ ہوگا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں(اور کرنا چاہئے) کہ دہشت گردی نے ہماری قومی معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا، اس کی وجہ سے پہلے سے ہی محدود وسائل پر دبائو آیا اور ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پر نظر ِ ثانی پر مجبور ہونا پڑا۔تاہم آنے والے دنوں میںیہ موقف اپنا وز ن کھو دے گا۔ ان گروہوں کے خلاف ایکشن لینے کے لئے واشنگٹن مزید دبائو ڈالے گا۔ نیز ان گروہوں کی درپردہ مدد کے لئے دشمن ایجنسیوں کا نادیدہ ہا تھ بھی فعال رہے گا۔ دوسرے الفاظ میں، ہم اپنا رد ِعمل بہتر بناتے ہوئے عالمی سطح پر زیادہ ساکھ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح ہم ان گروہوں کے خلاف امریکی جنگ میں بھی خو دکو محفوظ بنا سکیں گے۔
چنانچہ ان کالعدم تنظیموں پر ہمارے ہاں ہونے والی بحث ایک نئے موڑ میں داخل ہوکر ہمیں احساس دلائے گی کہ ہمیں ان تنظیموں کے مستقبل کے بارے میں فوری طور پر کوئی واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان گروہوں، جن کی سرگرمیوں نے ملکی مفادات کو خطرے میں ڈال رکھا ہے، کے بارے میں اتفاق ِرائے حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی میٹنگزسے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی حقیقی آزمائش وہ مرحلہ ہوگا جب شہروں اور قصبوں میں ان گروہوں کاصفایا کرنے کے لئے ایکشن لینا پڑے گا۔ یہ شہراور قصبے ہی ہیں جہاں یہ گروہ اپنی انتہائی خطرناک موجودگی رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسداد ِ دہشت گردی کے اداروں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ا ن کی توجہ کا ارتکازدہشت گردی کے صرف نمایاں ہونے والے خدوخال کو تباہ کرنے تک محدود، جبکہ فاٹا کو انتہا پسندوں سے آزاد کرا لینا اور دہشت گردوں کو مشتبہ انداز میں ختم کرنا اس حکمت ِعملی کے دونمایاں ستون رہے ہیں۔ ہم انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشنز کی بہت بات کرتے ہیں۔
اس ضمن میں اپنی کامیابی جتانے کے لئے ناقابل ِ یقین حد تک اعدادوشمار کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔اس دوران یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ دہشت گردی کے خطرے کا نرم نیٹ ورک (جو حقیقی خطرے کی بنیاد ہے )، جیسا کہ بھرتی، فنانسنگ اور ان کی بلا روک ٹوک نقل وحرکت ہماری صلاحیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔
آنے والے دنوں میں صلاحیت کا یہ پہلو حقیقی چیلنج بن کر سامنے آجائے گا کیونکہ دنیا اس بات کا انتظار نہیں کرے گی کہ ہم کب سست روی سے اتفاق ِرائے پیدا کرنے اور کوئی کارروائی کرنے کا سوچتے ہیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے ہوں گے۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو اگلے دو تین ماہ تک نتائج دینے ہوںگے۔ اس دوران مشرق ِوسطیٰ میں لڑی جانے والی جنگیں ہماری سمت بڑھ رہی ہیں۔ پارا چنار میں مسلکی بنیادوں پر کیا جانے والا حملہ اس خدشے کو تقویت بخشتا ہے کہ ایران اور اہم عرب ممالک کے درمیان کشمکش اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے صرف بارہ گھنٹوں کے اندر اندر ہی پاراچنار کا واقعہ پیش آگیا۔ اس سے اس علاقے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جہاں وہ اپنی توانائی مرکوز کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے ذہن میں یقینا یہ تزویراتی مقاصد موجود ہوں گے۔اس وقت ملک کے داخلی حالات، جو کسی ایسے اسٹیڈیم کی یاد دلاتے ہیں جہاں بہت سے کھیل جاری ہوں، میں قومی اتفاق ِرائے حاصل کرناکم وبیش ناممکن ہوچکا ہے۔ عدلیہ کے ایوانوں سے لے کر میڈیا اور منڈی سے لے کر ادارے، سب پاناما کا رخ کرچکے ہیں۔ اس ماحول میں انتہائی حساس موضوعات پر بحث کیسے ہوگی؟شکستہ داخلی نظام بیرونی دیواروں کو پختہ کیسے کرسکتا ہے، خاص طور پر جب ہر کوئی الگ الگ سمت میں زور لگارہا ہو۔ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے بعد امریکی خارجہ پالیسی انتہائی فعال ہوجائے گی۔ نئی انتظامیہ نے ثابت کرنا ہے کہ ’’باتونی صد‘‘ اب آمادہ ِعمل ہیں۔ ہمارے سامنے مشکلات کی چڑھتی آنے والی لہر ہے، ضائع کرنے کے لئے ہر گز کوئی وقت نہیں، حتیٰ کہ ان سرگرمیوں کے لئے بھی نہیں جن میں ہم آج کل مصروف ہیں۔

.
تازہ ترین