• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا سب سے زیادہ متاثرہ اور فرنٹ فائٹر پاکستان یہ مشکل ترین جنگ ہی نہیں لڑتا رہا، اس کے متوازی پاکستان کی بحریہ عالمی امن پر یقین رکھنے والے دوست ممالک سے مل کر سمندری ٹریفک ، عالمی تجارت اور ساحلوں کو ہر قسم کے خطروں بشمول دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لئے عالمی امن و سلامتی کا ایک ایسا ڈیزائن تیار کرچکی ہے جسے وہ پوری دنیا کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لئے سرگرم ہے۔ پاک بحریہ کا یہ امتیازی اقدام اسے دنیا میں ایک بے مثال مقام عطا کرنے کو ہے۔ اس عظیم کارنامے کو پاکستان اور خود پاک بحریہ نے خود بہت سی اسٹریٹجیکل وجوہات کے باعث زیادہ شہرہ نہیں دیا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاک بحریہ کے عالمی سمندری امن کے لئے اس بے مثال اور عظیم کار خیر سے عالمی برادری کو آگاہ کیا جائے کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں عالمی امن اور دنیا کی ا قتصادیات کو مستحکم و محفوظ اور متوازن کرنے کی بڑی ضرورت بن چکی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی صلاحیت بحرہ عرب، خلیج اور بحر ہند کے امن اور میری ٹائم(سمندری ٹریفک) کو رواں دواں رکھنے اور بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرنے تک بڑھ چکی ہے ، جس میں سی پیک کی تکمیل سے کئی گنا اضافہ ہوگا اور پاکستان کی بحریہ بحر ہند میں بحری جنگوں کے امکانات کو روکنے اور قیام امن میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والی بحریہ بن جائے گی۔ یوں یہ عالمی سمندری امن کی بڑی ضمانت ہوگی۔
تیزی لیکن قدرے خاموشی سے بنتی اس کہانی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ پاک بحریہ نے اپنی یہ حیثیت اور اہمیت اس عرصے میں بنائی ہے جبکہ پاکستان کی بری فوج اور پوری پاکستانی قوم ملکی سرحدوں (بشمول سمندری) اور اندرون ملک ، دہشت گردی کی ایک عشرے پر محیط جنگ (جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے) لڑ رہی تھی۔یہ وہ وقت بھی ہے جب بھارت اپنی بحریہ کے بجٹ میں بے پناہ اضافہ کرکے غریب قوم کا کھرباہا روپیہ دھڑا دھڑ بحری اسلحہ خریدنے پر صرف کرتا رہا لیکن ممبئی دہشت گردی کے تناظر میں ا پنے گجرات کے ساحل کو محفوظ نہ بنا سکا، ایسے میں پاک بحریہ نے یہ کمال حکمت عملی اختیار کی کہ بھارت کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس نے سمندری امن کو دہشت گردی سے درپیش خطرات کو ٹالنے اور اپنی 700کلو میٹر طویل سمندری سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لئے دوست ملکوں کے اشتراک سے امن مشقوں کی سیریز شروع کی جو نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور یہ پاک بحریہ کا کامیاب ترین مستقل فیچر بن گیا۔
اس سلسلے کی پہلی مشترکہ مشق ’’امن۔07‘‘ کے نام سے مارچ 2007میں ہوئی جس میں پاکستان سمیت 28دوست ملکوں نے اپنے بحری اثاثے اور مبصرین کے ساتھ شرکت کی۔ اس میں چین ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، ملائیشیا اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔ 14بحری جنگی جہازوں نے ان میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ترکی اور امریکہ کی ٹیموں نے اسپیشل آپریشنز کی مشقوں میں حصہ لیا۔ 21ممالک بطور مبصر شریک ہوئے، مشقوں کے ساتھ ساتھ 4سے 6مارچ(2007) تک بحریہ یونیورسٹی کراچی میں انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ’’عالمی تناظر میں ، بحرہند کی سلامتی، بحر ہند کا نظم و ضبط، میری ٹائم قوانین وادوار اور پونڈ ولیج کی مینجمنٹ جیسے اہم ٹیکنیکل موضوعات پر مقالے پڑھے گئے تھے۔ پاک بحریہ کے دوست ممالک کے اشتراک سے’’سمندری امن‘‘ کے اس بڑے اور بنیادی انی شیٹو کے بعد2009، گیارہ اور تیرہ میں یہ سیریز جاری رہی۔ عالمی امن کے لئے پاک بحریہ کے اس کامیاب ترین سیریز کا ایک بڑا مقصد عالمی امن کے لئے منفرد اور کوئی بڑی کوششیں کرکے پاکستان کے عالمی امیج کو بڑھانا تھا۔ اس کے علاوہ علاقائی استحکام و امن کے قیام میں پاکستان کے کردار ادا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور بحرہند کے خطے میں سمندری ٹریفک کو پرامن اور رواں دواں رکھنے میں کلیدی کردار کی ا دائیگی ہے جس میں پاکستان خطے کے دوست ممالک کو بھی شامل کررہا ہے۔ پاک بحریہ کی امن سیریز کا ایک بڑا مقصد دوست ممالک کی اور ان کے اشتراک سے اپنی بحریہ کی دہشت گردی کا مقابلہ اور اس کی بیخ کنی کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔
پاک بحریہ کی امن مشقیں 10فروری2017سے شروع ہونے والی ہیں جو 14فروری تک جاری رہیں گی۔ پاک بحریہ نے ان میں شرکت کے لئے 71دوست ممالک کو شرکت کی دعوت جن میںسے 35ممالک ان امن مشقوں میں شامل ہوں گے۔ نہ شامل ہونے والے ممالک نے بھی پاک بحریہ کے اس اقدام کی توصیف کرتے ہوئے پاکستان کے اس اقدام کو سمندری امن اور سمندری سرحدوں کی سلامتی کے لئے اہم قرار دیا، تاہم وہ مختلف وجوہات اور مجبوریوں کے باعث ان میں شامل نہیں ہو پارہے، لیکن ہماری بحریہ کے اس اہم اور تاریخی سیریز میں شریک ہونے والے ممالک کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاک بحریہ کی یہ سیریز سی پیک کے تناظر میں انتہائی اہمیت اختیار کرنے والی ہے جب پاکستان کا پرامن محفوظ اور تمام تر ضرورتوں کا جدید ترین محفوظ ساحل ناصرف یہ کہ پاکستان کی خوشحالی اور امن کا مستقل ذریعہ بنے گا بلکہ تین متذکرہ ہمسایہ خطے حتیٰ کہ روس اور برطانیہ جیسے دور دراز کے ممالک بھی اس سے جائز فائدہ اٹھانے کےلئے منصوبہ بندی کرتے نظر آ رہے ہیں ۔یوں پاک بحریہ گوادر تا کراچی، تیزی سے بنتے، دنیا کے مصروف ترین تجارتی ساحل کے تحفظ کی ذمے داریاں سنبھال کر ایک نیا کردار اور امتیاز حاصل کرے گی، جو عالمی امن اور اقتصادی استحکام کے قیام میں مثالی ہوگا۔پاک بحریہ کا یہ امتیاز اسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لیکر مشرقی افریقہ تک پھیلے ہوئے عظیم تر سمندری خطے کی اعلیٰ ترین معیار اور کردار کی نیوی بنانے کا باعث بنے گا۔

.
تازہ ترین