• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان جو ابھی تک اپنے اندرونی مسائل سے دوچار ہے اس کے باوجود وہ ایک اچھے پڑوسی کی طرح پاکستان سے مفاہمت کے بجائے مخاصمت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، بھارت جس کی سرحد بھی افغانستان سے دور دور نہیں ملتی اپنی طوطا چشمی کے باعث اس کی گود میں سمائے جا رہا ہے حالانکہ افغانستان کو روس سے نجات دلائی اور لاکھوں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کی مہمان نوازی کی۔ پاکستان کواب تک ایک طویل مدت کی کفالت اور مہمان نوازی قومی سطح پر بڑی مہنگی پڑ رہی ہے افغان مہاجرین اپنے ساتھ منشیات کی لعنت ہی نہیں لائے وہ تو اپنے ساتھ کلاشنکوف بھی لائے اور کئی طرح کی خرابیاں بھی پاکستان میں پھیلانے کا موجب بنے پاکستان نے ہی افغانستان میں امن قائم کرنے اور ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے جسے بین الاقوامی دہشت گرد حکمرانوں نے قطعی پسند نہیں کیا افغان اسلامی مملکت کو ملیا میٹ کرنے اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے تمام بین الاقوامی کلیسائی قوتوں نے مل کر نا صرف افغان اسلامی حکومت کو ختم کیا اور افغانستان کو پھر باہم دست و گریبان کردیا اب ایک طرف امریکی سرپرستی میں نیٹو افواج اور دیگر قوتیں ہیں اور ان کے مد مقابل طالبان قوت ہے آج بھی امریکہ اور نیٹو افواج کی تمام تر کوشش اور محاذ آرائی کے باوجود تقریباً اکتالیس اضلاع پر افغان طالبان قابض ہیں امریکہ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ان پر پوری طرح قابو نہیں پاسکا قندوز شہر پر طالبان نے دوبارہ قبضہ حاصل کرلیا ہے اور ہلمند کے دار الحکومت لشکر گاہ کے مضافات میں بھی طالبان نے مورچے سنبھال رکھے ہیں، گزشتہ سال سے41 افغان اضلاع کے دار الحکومتوں اور کئی علاقوں میں طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے، کابل انتظامیہ سر توڑ کوشش اور اتحادی افواج کی شراکت کے باوجود ان تمام علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، طالبان اپنے قبضہ میں آئے ہوئے علاقوں کا نظم و نسق اپنی مرضی اور شرعی احکام کے مطابق چلا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود طالبان کا وہ حصہ جو سرزمین پاکستان میں سر گرم ہے جس کی ناک میں افواج پاکستان نے کسی حد تک نکیل ڈال دی ہے افواج پاکستان انہیں دھکیلتے ہوئے سرحد پار تک پہنچا چکی ہے لیکن اس کے باوجود افغان طالبان سے مل کر پاکستانی طالبان اپنی من مانی کرتے ہی رہتے ہیں اور وطن عزیز میں جہاں ان کا بس چلتا ہے تخریبی کارروائی کر گزرتے ہیں، بقول فاٹا کے ایک سردار کی رائے میں چونکہ پختونوں کے خون میں انتقام لینا شامل ہے اس لئے جن خاندانوں کے افراد کسی بھی طرح کی کارروائی میں مارے جاتے ہیں اس خاندان کا یا قبیلے کا کوئی نہ کوئی فرد اپنے لوگوں کا انتقام لینے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، ضرب عضب کے باوجود جو خود کش کارروائیاں ہو رہی ہیں یہ ذاتی انتقام کی ہی وجہ سے ہو رہی ہیں پھر اس کی آڑ میں منفی سوچ رکھنے والے طالبان جن کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں وہ بھی اپنی کارروائی سے باز نہیں آرہے۔
افغانستان میں متعین امریکی افواج کے کمانڈر نے 6 جنوری 2017ء کو اعلان کیا ہے کہ موسم بہار میں صوبہ ہلمند میں افغان افواج کی مدد کے لئے 300 امریکی فوجی بھیجے جائیں گے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ موسم گرما میں اسپیشل فورس کے امریکی دستے جو صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے دفاع کے لئے بھیجے گئے تھے وہ منہ کی کھا کر اپنے فوجی کیمپ کی جانب فرار ہوگئے تھے۔ ہلمند کے علاقے شوراو میں واقع امریکی بیس کیمپ ہیسٹن میں گو کہ سینکڑوں امریکی فوجی تعینات ہیں لیکن وہ سب ایک خوف کی فضا میں رہ رہے ہیں اطلاعات کے مطابق بیشتر جوان ذہنی پراگندگی کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جس کی ایک مثال ایک کینیڈین فوجی کی دی جاسکتی ہے جس نے چھٹی پر گھر کینیڈا پہنچنے پر اپنے گھر کے پانچ افراد کو گولی مار کر اپنے آپ کو بھی گولی مار دی کینیڈین ٹی وی چینل کے مطابق سرکاری حکام کی جانب سے جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی اس میں بتایا گیا ہے کہ فوجی جوان افغانستان میں اپنی ڈیوٹی کے دوران اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا اس لئے اس نے گھر آتے ہی اپنے تمام افراد خاندان کو اور خود کو گولی سے اڑا لیا افغانستان میں متعین بیشتر اتحادی فوجی جوان نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اب تک 180 کینیڈین فوجی نفسیاتی اور اعصابی امراض کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ 72 نے خود کشی کی ہے افغان جنگ میں شریک افواج کے 292 فوجی جوانوں نے خود کشی کی ہے امریکہ بغیر سوچے سمجھے افغانستان میں داخل ہونے سے کافی نقصان اٹھا چکا ہے اب وہ بتدریج پسپا ہو رہا ہے نیٹو افواج میں بھی بتدریج کمی ہو رہی ہے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج اپنی تمام تر کوشش کے باوجود افغانستان فتح نہیں کرسکے ہاں یہ ضرور کیا ہے کہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ ضرور بجا دی اور ایک اسلامی مملکت کا خاتمہ کرنے میں کسی حد تک ہی سہی کامیاب ضرور ہوا ہے امریکہ جس نے نہ صرف اسلامی ملک افغانستان بلکہ اسلامی ملک عراق، شام، یمن اور لیبیا میں بھی فوج کشی کر کے مسلم امہ کو منتشر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہےنتیجے میں وہ خود معاشی، مالی مشکلات سے دوچار ہوگیا ہے اب اقتصادی معاشی طور پر امریکہ اس قدر مستحکم و مضبوط نہیں رہا۔ سونے پر سہاگہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے باقی کسر پوری کردی ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

.
تازہ ترین