• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
براعظم افریقہ کی کسی دُور دراز بستی میں کچھ خاندان جدید دُنیا کی آسائشوں سے محروم زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے تھے،مختلف ممالک کے سیاح اُن بستیوں کی طرف جاتے اور وہاں کے رہنے والوں کے شب و روز پر غور کرتے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں،کسی سیاح کا زمین پر گرا آئینہ ایک دن اُس بستی کے رہائشی کو ملا تو حیرانی سے اُسے دیکھنے لگا کیونکہ اُس کے لئے یہ بالکل نئی چیز تھی،افریقی کو آئینے میں اپنی شکل نظر آئی تو وہ سمجھا کہ یہ اُس کے باپ کی تصویر ہے،وہ آئینہ اپنی جھونپڑی میں لے آیا،وہ روزانہ اُس آئینے کو دیکھتا اور اپنے ہی عکس سے باتیں کرتا، ہنستا،کبھی آئینے کو اپنے منہ کے نزدیک کرتا اور کبھی اُسے دور رکھ کر دیکھتا،یہ سارا منظر اُس افریقی کی بیوی بھی دیکھتی رہتی، بیوی تھی اُسے شک ہونا شروع ہوگیا، ایک دن اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی نے آئینہ نکالا اور اپنا عکس دیکھ کر بولی کہ ’’ اچھا یہ ہے وہ کلموہی ‘‘ جس کے ساتھ میرا شوہر روز باتیں کرتا ہے ؟وہ آئینہ لے کر اپنی ساس کے پاس پہنچی اور اُسے اپنا شک بیان کیا،جب ساس نے آئینہ دیکھا تو اپنا عکس دیکھتے ہی بولی،چڑیل کی عمر دیکھو اور اِس کے کرتوت دیکھو :ہم شاید اُن افریقی بستیوں کے مقیم ہیں ہم بھی’’ اپنے ضمیر‘‘ کونئے آئینے کی مانند دیکھتے ہیں، اُس میں اپنا ہی عکس دیکھ کر پہچان نہیں پاتے،کہ یہ چہرہ ہمارا ہے یا کسی اور کا ہے۔پاکستان میں پانامہ لیکس اسکینڈل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،اس کیس کے حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پرسپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔تحریک انصاف کے وکلا میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دئیے جانے کا فیصلہ سُنائے جانے کے لئے زوردار دلیلیں دے رہے ہیں،کچھ کاغذات اور تقاریر کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے بچوںکے بیانات پر بحث کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پانامہ لیکس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد جس طرح دوسرے ممالک کے سربراہان نے استعفیٰ دیا تھا اِسی طرح وزیراعظم پاکستان بھی استعفیٰ دیں کیونکہ اتنے بڑے اسکینڈل کے ہوتے ہوئے اخلاقی طور پر اُن کی وزارت عظمیٰ کا کوئی جواز نہیں رہتا۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے جانباز اپنے قائد کے حق میں دھواں دار تقاریر اور بیانات جاری فرما رہے ہیں۔ وہ وزارت عظمیٰ کی کشتی کو پانامہ لیکس اسکینڈل کے طوفان سے بچانے کے لئے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں وہ عوام الناس کا دھیان موجودہ حکومت کی کارکردگی کی جانب مبذول کرانے میں مصروف ہیں۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ایک ایک ثبوت، کاغذات، تقاریر، بیانات اور دوسرے شواہد کا بغور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ انصاف کے تقاضوں کو بلا امتیاز پورا کیا جا سکے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں سب سے بڑا مقدمہ لڑا جا رہا ہے۔پاکستانی عوام کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے وہ اِس روز روز کی دھینگا مشتی کو ختم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ پانامہ لیکس اسکینڈل کا ڈراپ سین جلد ہوجائے، نتیجہ کوئی بھی ہو، فیصلہ کچھ بھی سامنے آئے۔یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا دھیان اُن ممالک میں اپنے بزنس اور نوکریوں سے زیادہ پانامہ لیکس اسکینڈل کے فیصلے پر لگا ہوا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت چائنا سمیت بہت سے ممالک سرمایہ کاری کر رہے ہیں یا کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔لیکن وطن عزیز میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی قانونی جنگ اُن ممالک کے سرمایہ کاروں کو بھی تذبذب کا شکار بنا رہی ہے، آئے دن سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنا، تیز و تند جملوں کا استعمال، ذاتیات پر تہمتیں، ماضی کے’’ کچے چٹھے ‘‘۔ پاک آرمی نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دوسرے ممالک کے سرمایہ کاروں کو دہشت گردی جیسے خوف سے نجات دلا کر پاکستان میں اُن کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا تھا، لیکن ملک کی موجودہ صورت حال اُن سرمایہ کاروں کے خوف میں ایک بار پھر اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔تارکین وطن پاکستانی عموماً یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ماڈل ایان علی لاکھوں ڈالرز کے ساتھ پکڑی جاتی ہے اور اُس پر منی لانڈرنگ کا کوئی کیس نہیں بنتا، اُ س کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جاتا ہے، یعنی ایک اداکارہ اور ایک ماڈل کو بچانے کے لئے پاکستان کی کئی سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان میدان میں اُترے ہوئے ہیں، اب اگر ماڈل آزاد گھوم رہی ہیں توملک کے طاقتور وزیر اعظم کو پانامہ لیکس اسکینڈل میں کیونکر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں،کیونکہ وزیر اعظم اور اُن کی اولاد پر تو پانامہ لیکس اسکینڈل کاالزام ہے جبکہ مذکورہ ماڈل رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھیں۔ہماری لکھی گئی تحریریں دراصل قلمی بحث ہوتی ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، قلمکار تو صرف اپنے جذبات کا اظہار کرتاہے وہ بھی ارد گرد کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے۔اب اُن جذبات کی مخالفت یا طرف داری کرناپڑھنے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ جنگل میں گھوڑے اور گدھے کی بحث ہو گئی۔ گھوڑے نے کہا کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے، جبکہ گدھا کہہ رہا تھا کہ سُرخ ہے، بحث بڑھی تو گھوڑے نے کہا کہ چلو اپنے بادشاہ کے پاس چلتے ہیں، دونوں شیر کے پاس پہنچے اور اُسے تمام قصہ سُنایا،شیر نے سب کچھ سننے کے بعد کہا کہ گھوڑے کو جیل میں ڈال دیا جائے، گھوڑے نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت، یہ کیسا انصاف ہے،صحیح ہونے کے باوجود جیل بھی مجھے جانا پڑ رہا ہے،بادشاہ بولا بات صحیح یا غلط کی نہیں ہے، تمہیں جیل کی سزا اس لئے دی جا رہی ہے کہ ایک گھوڑا ہوتے ہوئے تم نے گدھے سے بحث ہی کیوں کی ؟



.
تازہ ترین