• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسّی کی دہائی کا ایک مشہور انگریزی محاورہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہوگا جس کے مطابق دنیا میں جس شخص کے پاس برطانوی پاسپورٹ اور جاپانی بیگم ہو وہ دنیا کا بے غم ترین یعنی خوش قسمت ترین شخص تصور ہوگا اسی طرح کا محاورہ جرمن خواتین کے لئے بھی مشہور ہے یعنی أسی کی دہائی میں برطانوی پاسپورٹ پر تقریباً پوری دنیا کاہی ویزہ کے بغیر سفر کیا جاسکتا تھا جبکہ جاپانی اور جرمن خواتین کے حوالے سے مشہور تھا کہ یہ خواتین انتہائی خدمت گزار اور وفادا ر ہوتی ہیں لہٰذا انسان کے پاس اگر برطانوی پاسپورٹ اور جاپانی یا جرمن بیگم ہو تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصورکرسکتا ہے،جرمن خواتین کے حوالے سے میرے پاس اتنی زیادہ معلومات تو موجود نہیں ہیں لیکن کچھ احباب کو ضرور جانتا ہوں جن کی بیگمات کا تعلق جرمنی سے ہے اور بلاشبہ ان خواتین کے بارے میں کہاجاسکتا ہے وہ واقعی انتہائی خدمت گزار اور وفادار خواتین ہیں، یہاں میں پاکستان کے معروف سائنسدان، کالم نگار اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی اہلیہ کا ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے پوری زندگی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پوری وفاداری اور خدمت گزاری کے ساتھ بسر کی ہے، اس دوران ڈاکٹر صاحب کو شروع میں پاکستان میں کام کے دوران اپنی نقل و حرکت کو بھی محدود رکھنا پڑا اور سیکورٹی کے باعث آزادانہ نقل وحرکت بھی میسر نہیں تھی جبکہ مشرف دور میں ڈاکٹر صاحب پر جو مشکلات پڑیں اس وقت بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اہلیہ نے اپنے مجازی خدا کا بھرپور ساتھ دیا۔جاپان کے حوالے سے معلومات اس لئے بھی زیادہ ہیں کہ پندرہ سال کا عرصہ جاپان میں گزارنے اور ہزاروں ایسے پاکستانیوں سے شناسائی بھی ہے جنہوں نے اپنے انتہائی مشکل وقت میں جاپانی خواتین کو زندگی کا ہمسفر بنایا اور انہوں نے جس طرح ہمارے پاکستانی بھائیوں کا ساتھ دیا اس کے وہ آج بھی معترف ہیں۔جاپانی بیگمات کے حوالے سے یہ محاورہ اس دن بھی مجھے یادآگیا جب ٹوکیو کے معروف ریستوران میں میرے بزرگ دوست طیب صاحب اب سے پینتیس برس قبل ہونے والی اپنی شادی کے حوالے سے دلچسپ واقعات بتارہے تھے آج ان کی شادی کی سالگرہ بھی تھی وہ بتارہے تھے کہ پینتیس برس قبل وہ اپنے بڑے بھائی کی دعوت پر جاپان پہنچے تھے جو پہلے ہی جاپان میںکاروبار سے منسلک تھے طیب صاحب بھی آتے ہی کاروبار میں بھائی کا ہاتھ بٹانے میں مصروف ہوگئے،کاروبار کے سلسلے میں ہی مختلف جاپانی دفاتر آنا جانا ہوتا تھا وہیں ایک نوجوان خاتون سے بات چیت ہوئی جو آگے جاکر دوستی میں تبدیل ہوگئی جو مزید آگے جاکر محبت میں بدل گئی، بڑے بھائی کو طیب صاحب کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ اندازہ ہوچکا تھا لہٰذا پاکستان شکایت پہنچی اور وہاں سے والدین نے سختی سے تاکید کی کہ کسی بھی صورت میں شادی تم نے پاکستان میں ہی کرنی ہے جبکہ جس جاپانی دوشیزہ سے ہمارے بزرگ دوست پینتیس برس قبل عشق فرمارہے تھے ان کے والدین نے بھی سختی سے منع کردیا کہ کسی بھی حالت میں غیر ملکی سے شادی نہیںہونی چاہئے دونوں جانب سے سختی کے باوجود دونوں ہی عاشقوں پر اثر نہ ہوا تو طیب صاحب کو پاکستان روانہ کردیا گیا جبکہ جاپانی دو شیزہ کی ملازمت چھڑوا کر والدین اسے اپنے ساتھ دوسرے شہر لے گئے،طیب صاحب کا نہ پاکستان میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی جاپانی دوشیزہ کا اپنے گھر میں دل لگ رہا تھا طیب صاحب نے کافی منت سماجت کے بعد اپنے والدین کو جاپانی خاتون سے شادی کے لئے رضا مند کرلیا لیکن جاپانی دوشیزہ کے گھر والے کسی بھی طرح ایک پاکستانی سے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے تیار نہ تھے،جیسے ہی جاپانی دو شیزہ کو موقع ملا انھوں نے طیب صاحب کے قریبی دوست سے رابطہ کیا، وہ اپنے شہر سے براستہ ٹرین ٹوکیو پہنچیں، طیب صاحب کے دوست نے فوری طورپر ان کا پاکستان کا ویزہ لگوایا اور اگلے روز محترمہ کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھیں جہاں طیب صاحب اور ان کے اہل خانہ نے جاپانی دوشیزہ سے طیب صاحب کی پاکستانی طریقے سے دھوم دھام سے شادی کردی شادی کی تصاویر لڑکی کے والدین کو روانہ کی گئیں،پاکستانی رہن سہن اور ثقافت سے لڑکی کے گھروالے بھی متاثر ہوئے اور وہ بھی اپنے بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوگئے، آج طیب صاحب کے تین بچے ہیں۔طیب صاحب ان پینتیس برسوں میں اپنی جاپانی اہلیہ کی جانب سے دی جانیوالی قربانیوں پر نازاں ہیں اور خوش ہیں کہ انھیں برطانوی پاسپورٹ نہ سہی لیکن جاپانی بیگم تو ملیں لہٰذا وہ بھی اپنے آپکو خوش قسمت شخص تصور کرتے ہیں،ایک اور سینئر پاکستانی جنہیں جاپان میں محمد علی کے نام سے پہچانا جاتا ہے وہ اٹھائیس برس قبل جاپان پہنچے کراچی کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے وہ بھی اپنے بڑے بھائیوں کی دعوت پر جاپان آئے شرو ع میں کافی محنت کی،فیکٹریوں میں ملازمت کی لیکن محنت اور قسمت کے بل بوتے پر گاڑیوں کے کاروبار میں سیٹ ہوگئے،وہ نوے کی دہائی تک جاپان میں غیر قانونی طور پر مقیم رہے لیکن جب کاروبار بڑھا تو انھیں اپنے غیر قانونی اسٹیٹس نے پریشان کیا اسی دوران ایک جاپانی خاتون سے دوستی ہوئی اور وہ دوستی جلد ہی محبت میں تبدیل ہوئی خاتون کو شادی سے قبل ہی تمام صورتحال بتادی گئی کہ وہ بغیر ویزے کے جاپان میں مقیم ہیں لہٰذا اگر وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہیں تو ابھی بھی فیصلے کا وقت ہے تاہم مذکورہ خاتون نے نہ صرف شادی پر آمادگی ظاہر کی بلکہ ہر طرح کا قانونی تعاون فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا، تاہم محترمہ نے شادی سے پہلے محمد علی کے گھر والوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ا کیلے ہی وہ پاکستان گئیں اور ایک ہفتہ محمد علی کے گھر والوں کے ساتھ گزار کر واپس آئیں، انھیں پاکستان کے لوگ اور وہاں کی ثقافت بہت پسند آئی اور انھوں نے محمد علی کے ساتھ شادی کے لئے حامی بھرلی اور چند ماہ کے اندر محمد علی غیر قانونی اسٹیٹس سے تبدیل ہوکر لیگل ہوچکے تھے ان کا کاروبار بھی قانونی ہوچکا تھا اور آج محمد علی ٹوکیو میں اپنی جاپانی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں جاپان میں ہزاروں پاکستانی موجود ہیں جن کی بیگمات جاپانی ہیں اور تقریباً تمام ہی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور اسّی کی دہائی میں شروع ہونے والے محاورے کو حقیقت کی شکل دے رہے ہیں،تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟



.
تازہ ترین