• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تجربہ یا مشاہدہ صرف میرا نہیں، آپ کا بھی ہوگا، کوئی صاحب کہیں گے کہ آپ سے ملاقات کو جی چاہ رہا ہے۔ میں کہتا ہوں، میں آج فارغ ہو کر آپ کو فون کروں گا اور آپ کی سہولت کے مطابق آپ کی طرف آجائوں گا۔ وہ کہیں گے ’’نہیں جناب! آپ نے آج میرے ساتھ کھانا کھانا ہے‘‘ میں کہتا ہوں کہ کھانے کی شرط ضروری نہیں، بس میں آجائوں گا، مگر وہ بضد رہتے ہیں، تاہم وہ مجھے کھانا کھلانے میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ میں ان کی طرف جاتا ہی نہیں۔
یہ کھانے والا معاملہ عجیب ہے، ہم ہر بات کو کھانے کے ساتھ مربوط کر دیتے ہیں، بارات پہ کھانا تو سمجھ میں آتا ہے اور ولیمے کا کھانا بھی قابل فہم ہے مگر اللہ جانے ولیمے میں یار لوگ دولہا کے کان میں دھیمے دھیمے ہنستے ہوئے کیا سرگوشیاں کررہے ہوتے ہیں؟ ایک ستم ظریف کا کہنا ہے کہ فتویٰ پوچھ رہے ہوتے ہیں، واللہ عالم ایک کھانا قلوں اور ایک چہلم کے موقع پر بھی ہوتا ہے مگر مجھ سے یہ کھانا کھایا نہیں جاتا، مجھے لگتا ہے کہ مرحوم پلائو اور گوشت سے ’’لبالب‘‘ بھری ہوئی پلیٹیں دیکھ کر قبر میں پلٹیاں کھا رہا ہے۔ آپ کو زندگی میں کوئی کامیابی ملتی ہے تو دوستوں کی طرف سے کھانے کی فرمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب تو کھانے کے بغیر سیاست بھی نہیں ہوتی، ہر جلسے میں حاضرین کو کھانا پیش کیا جاتا ہے اور اس میں جو بھگدڑ مچتی ہے اس سے لگتا ہےجیسے کئی دنوں کے بعد کھانے کی شکل دیکھی گئی تھی۔ ایک بار طارق عزیز نے اپنے شو میں مجھ سے پوچھا کے ایسی شادیوں میں بھی ’’کھانا کھلنے‘‘ کے اعلان پر قیامت کا منظر دیکھنے کو ملتا ہےجس کے شرکاء کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے جواب دیا ’’صدیوں کی بھوک ایک دو نسلوں سے نہیں جاتی‘‘ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری رگوں میں خون کی جگہ کھانا دوڑنے لگا ہے۔ آپ کسی بھی ریستوران میں چلے جائیں۔ وہاں آپ کو ٹیبل کے انتظار میں لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ عوامی جگہوں پر دن کے کسی بھی اوقات میں چلے جائیں۔ کہیں چکن چھولے کھائے جارہے ہیں، کہیں پائے کھانے والے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں، کہیں تخم ملنگاں پیا جارہا ہے۔ کہیں تکے کباب کھائے جارہے ہیں، لگتا ہے حکومت نے ڈیٹ فکس کردی ہے اور اعلان کیا ہے کہ آج کھانے کا آخری دن ہے، اس کے بعد کے حالات کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔
آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ میں جب کسی شادی میں شرکت کرتا ہوں تو گھر سے کھانا کھا کر جاتا ہوں۔ آپ خود ہی انصاف سے کام لے کر بتائیں کہ اردگرد لوگوں کے ہجوم میں چند لقموں کے لئے اپنا پہاڑ جیسا منہ کھولنا کوئی شریفانہ عمل ہے؟ کھانا تو ایک پرائیویٹ فعل ہے جس کا مزا چولہے کے پاس پیڑھی پر بیٹھ کر توے سے اترتی گرم گرم روٹی کھانے ہی میں ہے۔ ویسے بھی انسان کو بھوک سات بجے شام لگی ہو اور کھانا آپ کو اس وقت ملے جب بھوک مر گئی ہو تو کیا فائدہ ایسے کھانے کا؟ اگرچہ میرے دوست علامہ شکم پرور لدھیانوی نے اس بھوک مرنے کو ’’بھوک چمکنے‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ مگر یہ ناتواں ان سے مقابلے کی سکت کہاں رکھتا ہے۔ یہی علامہ شکم پرور لدھیانوی گرمی کے موسم میں ایک شادی میں پلائو اور بوٹیوں کا قطب مینار بنا کر لان کے ایک گوشے میں کھڑے لذت کام و دہن کا اہتمام کررہے تھے۔ ان کے ایک ستم ظریف دوست ان کے پاس آئے اور کہا ’’علامہ صاحب‘‘ یہاں کھڑے ہونے کی بجائے آپ سامنے درخت کے نیچے جا کر کھائیں کیونکہ یہاں تو اور گھنٹے بعد دھوپ آجانی ہے‘‘۔
کھانے کا تذکرہ طویل ہوتا جارہا ہے تاہم مجھے علم ہے کہ کھانا نہ سہی، اس کا تذکرہ بھی بہت سے لوگوں کو مرغوب ہے۔ تو صورت حال یہ ہے کہ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ آپ سے پوچھے بغیر کولا کی بوتل کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا ، آپ کہیں گے بھائی میں شوگر کا مریض ہوں، مگر دوست کہے گا، آپ میرے لئے ایک دن پرہیز کا ناغہ نہیں کرسکتے، یہی صورت کھانے کے حوالے سے بھی درپیش ہوتی ہے، صاحب خانہ آپ کے سامنے کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگا دیتا ہے، آپ اسے بتاتے ہیں کہ آپ کھانا کھا کر آئے ہیں اور وہ کہتا ہے ’’ایک گھنٹے سے آپ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، پہلا کھانا ہضم ہوگیا ہوگا، چلیں زیادہ نخرے نہ کریں، بسم اللہ کریں‘‘ ہمارے ہاں اسے مہمان نوازی اور انگریزی میں اسے DYSENTERY کہتے ہیں۔

.
تازہ ترین