• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل اکثر سوچتا ہوں کہ قوم کو کس خطا کی سزا مل رہی ہے کہ بے داغ سبزے کی بہار کے باوجود ہر شے خزاں رسیدہ نظر آتی ہے۔ کسی ٹی وی چینل پر سن رہا تھا کہ پاکستان ان چھ ملکوں میں شامل ہے جو سرمایہ کاری کے لیے سب سے موزوں ہیں، مگر ہمارے معاشی تجزیہ نگار یہ تاثر دینے کی دانش ورانہ کاوش فرما رہے ہیں کہ ملکی معیشت کی نیّا بس ڈوبنے والی ہے اور ایک دن امریکہ کی طرح چین ہمارا آقا بن جائے گا۔ اب ہمارے ہاں کرپشن کی بڑی بڑی داستانیں گردش کرتی ہیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا پورا ڈھانچہ بیٹھ جانے والا ہے اور حکمرانوں کو مال بنانے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں، مگر ایک معتبر ادارے کی یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہوئی ہے کہ پاکستان نے کرپشن پر کسی قدر قابو پا لیا ہے۔ 2007ء میں اس کا 139واں نمبر تھا جو بہتری آنے کے بعد 116واں رہ گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ ہم زوال کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں یا اس سے باہر آ جانے میں کسی قدر کامیاب ہوئے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں مصلحین کی بہت کمی واقع ہو چکی ہے اور معاشرتی اصلاح کا صبرآزما کام کئی عشروں سے رکا ہوا ہے۔ ایک بالغ نظر ریفارمر مرض کی تہہ تک پہنچ کر علاج تجویز کرنے کے بعد لوگوں کو اسے استعمال کرنے پر مائل کرتا ہے جبکہ خود غرض اور حریص طبقے مرض کا علاج کرنے کے بجائے اس کا استحصال کرتے ہیں۔
ہماری ستّر سالہ تاریخ اس المناک حقیقت کی شاہد ہے کہ اقتدار کے بھوکے جرنیلوں اور انتقام کی شدت سے مغلوب سیاست دانوں نے ماضی میں بدعنوانیوں کے الزام پر کئی منتخب حکومتیں برطرف کیں اور ہر بار یہی اعلان ہوا کہ ہم سوسائٹی سے کرپشن کے تمام نشانات مٹا کر دم لیں گے۔ ہر بار نتیجہ اس دعوے کے برعکس نکلا، کیونکہ مارشل لا اور سیاسی فسطائیت میں قانون کی حکمرانی ختم اور طاقت کی بالادستی قائم ہو جاتی ہے۔ سول ادارے اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور فاشسٹ ہر شے پر غالب آ جاتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے نظام میں جواب دہی کا پورا سسٹم بے اثر اور میرٹ کا تصور دم توڑ دیتا ہے۔ پولیس چونکہ طاقت ور سیاسی گروہ کے اشاروں پر کام کرتی ہے، اس لیے اس میں ذمہ داری کا احساس کم اور اس کے نظم کا حصار ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح سول بیورو کریسی میں درست فیصلے کرنے کی صلاحیت گھٹتی جاتی ہے اور آئینی تحفظ کی چھتری بند ہو جانے سے وہ عوام کی خادم رہنے کے بجائے اربابِ اقتدار کی ملازم بن جاتی ہے۔ عدالتوں پر بھی غیر منتخب حکومتوں کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بدعنوانی، اقربا پروری، بے اعتمادی اور بلا کی بدنظمی کا جو منظر نامہ چھایا ہوا ہے، اِس کی صورت گری میں بار بار کے ٹیک اوورز اور سیاسی نظم سے آزاد حکمرانوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور اخلاقی، سماجی اور قانونی روک ٹوک میں ضعف پیدا ہو جانے سے کرپشن کا زہر بتدریج معاشرے کے اندر سرایت کر گیا ہے۔ رشوت لینا ایک جرم ہے، لیکن غذاؤں، دواؤں اور روزمرہ کی بنیادی سہولتوں میں جاں لیوا اجزا کی ملاوٹ اس سے کہیں زیادہ ہولناک جرم ہے۔ اب تو پانی پینے، کھانا کھانے اور دوا لینے سے خوف آنے لگا ہے اور ہمارے ماحولیات میں تباہ کاریوں کا جو عمل جاری ہے، اس میں سانس لینا بھی زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی فوڈ اتھارٹی نے بلاشبہ قابلِ قدر کام کیے ہیں اور محترمہ عائشہ ممتاز نے فرض شناسی، جرآت مندی اور دیانت داری کے سنگِ میل نصب کیے ہیں۔ انہیں ریاست کی طرف سے بہت اعلیٰ ایوارڈ اور ریوارڈ دینے چاہئیں تاکہ حوصلہ مند اور باضمیر سرکاری عمال عوام کی جان اور صحت کا تحفظ کر سکیں۔ دکھ یہ ہے کہ ان ہولناک جرائم کے خلاف عوامی اور سیاسی سطح پر کوئی تحریک اُٹھتی ہے نہ روحانی اور اخلاقی اقدار کا احیا کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کے منشور میں شامل ہے۔
ہمارے ہاں گزشتہ نو دس ماہ سے پانامہ لیکس کا ایک ڈرامہ لگا ہوا ہے جس نے انتہائی غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے اور قوم کی توانائیاں، نان ایشوز پر ضائع ہو رہی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے جھگڑالو رویوں اور ہمارے وکلاء کی طولانی دلیلوں کا کھوکھلا پن بے نقاب ہو رہا ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ کہ ہماری عدالت ِعظمیٰ کے قیمتی ہفتے لایعنی بحثوں میں ضائع ہو گئے ہیں اور گردان ہنوز باقی ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ سے ہمدردی پیدا ہو رہی ہے جو سچ کی تلاش میں خون پسینہ ایک کیے دے رہے ہیں اور سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ ہمارا میڈیا بھی قوم کی تشویش اور ذہنی انتشار میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ اطلاعات تک رسائی کے جنون میں مبتلا کچھ حلقے یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ عدالت کی کارروائی ٹی وی پر دکھائی جائے تاکہ عوام فیصلہ کر سکیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ گویا ملک میں افراتفری اور انارکی پیدا کی جائے اور عدالت عظمیٰ بھی مسلسل دباؤ میں رہے۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک بڑے مشکل مقام آتے ہیں جن کی مکمل اشاعت فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ بڑی احتیاط سے کی جاتی تھی اور اس پر تبصرے کی اجازت نہیں تھی اور یہی کہا جاتا تھا کہ مقدمہ عدالت میں ہے۔ اب جو نئے نئے رجحانات پرورش پا رہے ہیں، ان سے کئی خطرے جنم لے سکتے ہیں۔ ہمیں پانامہ لیکس کے مقدمے کی سماعت کے دوران سب سے زیادہ رنج اس منظر سے پہنچا کہ فاضل جج صاحبان جماعت اسلامی کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل کی پیشہ ورانہ قابلیت پر کڑے اعتراضات اُٹھاتے اور ریمارکس دیتے رہے کہ تم ہمارا وقت ضائع کرنے کے علاوہ اپنے مؤکل کو نقصان پہنچا رہے ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے جناب محمود علی قصوری، جناب اے کے بروہی، بیرسٹر ایم انور اور جناب ایس ایم ظفر جیسے بڑے قانون دان پیش ہوتے رہے اور آج... اس کے آگے سوچنے کی ہمت ہی نہیں۔ امیر جماعت اسلامی جناب سینیٹر سراج الحق اور جماعت کی شوریٰ پر لازم آتا ہے کہ وہ اس مسئلے کا نہایت گہرائی سے جائزہ لیں اور اپنا وقار قائم رکھنے کی عملی تدابیر بروئے کار لائیں۔
پانامہ لیکس کا ڈرامہ جس منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، اس سے انا پسندوں اور اقتدار پرستوں کی بساط الٹنے والی ہے اور پاکستان کی عظمت کا ایک نیا عہد طلوع ہورہا ہے۔ ہمارے عہد کے ایک عظیم شاعر مجید امجد نے کہا تھا ؎
فلک میں آگ لگ جاتی تو دونوں روبرو ہوتے
غروبِ شمس لازم تھا طلوعِ چاند سے پہلے

.
تازہ ترین