• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرنیلی سڑک جیسی مقبول کتا ب کا مصنف اگر یہ کہے کہ پشاور سے کلکتے تک یہ عظیم شاہراہ شیر شاہ سوری نے نہیں بنائی تھی تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہو گی۔ سچ یہی ہے کہ یہ جی ٹی روڈ جو بھارت جا کر شیر شاہ سوری مارگ کہلاتی ہے، شیر شاہ نے نہیں بنائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی ایک سڑک نہیں، شاید ساری ہی سڑکیں مزدوروں، بُلڈوزروں اور سڑک کوٹنے والے انجنوں نے نہیں بنائیں۔ یہ ساری ہی چھوٹی بڑی سڑکیں زمانہ قدیم سے موجود تھیں اور ان کا ہر طرف جال بچھا ہوا تھا۔ تو کیا کچھ ایسے حکمراں آگئے تھے جو برصغیر میں سڑکوں کا جال بچھا گئے۔ اب سنئے حقیقت۔ یہ جن شاہراہوں کا ذکر ہے یہ اصل میں راہ گیروں اور مسافروں کے قدموں کے نشان ہیں۔ میرے یہ کہنے کو سراہا جاتا ہے کہ اکّا دکّا افراد کے مسلسل چلنے سے پگ ڈنڈیاں بنتی ہیں اور قافلوں، لشکروں اور تاجروں کے چلنے سے سڑکیں بن جاتی ہیں وہ زمانہ زیادہ پرانا نہیں ہوا جب لوگ پیدل، بیل گاڑیوں پر اور باربردار جانورں کی پشت پر اِدھر سے اُدھر ہر جگہ آیا جایا کرتے تھے۔ انہوں نے راہ کی دشواریاں یا اونچ نیچ دیکھ کر اپنی راہیں خود ہی تراش لی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، یہ تراشے ہوئے راستے مستحکم ہوتے گئے۔ کچھ راہیں مقبول ٹھہریں اور ان پر آمد و رفت زیادہ ہونے لگی۔ ان کے کنارے لوگ پڑاؤ ڈالنے لگے، بستیاں بس گئیں، قصبے بن گئے اور شہر آباد ہونے لگے۔ یہ سلسلہ کبھی نہیں تھما۔ دنیا والے بڑے جیالے تھے، مشکل سے مشکل راہ کو پھلانگ کر کہاں کہاں نہیں پہنچے۔ کسی نے ریگستان عبور کئے اور کوئی فلک شگاف پہاڑوں کو پار کر گیا لیکن جو کمال کیا وہ یہ کہ ہر بار، ہر جگہ اپنے قدموں کے نشان ثبت کر دئیے۔ پھر وقت نے چولا بدلا۔ کچّی راہ داریوں کو پختہ کرنے کے گُر ایجاد ہوئے، پکّی سڑکوں کو کوٹ کر مستحکم کرنے کی مشینیں بن گئیں۔ تو پھر ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔ پٹھان بادشاہ شیر شاہ نے اپنی ایک مہینہ کم پانچ سال کی حکمرانی میں وہ کیا تعمیر کیا تھا جس کی آج تک شہرت ہے۔جواب یہ ہے کہ اس نے ویرانوں میں بن جانے والی خاک دھول اڑاتی سڑکوں کو مہذّب بنایا۔ اب جہاں علاقہ اٹک ہے، وہاں باغ نیلاب کے مقام سے ڈیڑھ ہزار میل دور بنگال کے تجارتی ٹھکانے سُنار گاؤں تک بر صغیر کی سب سے بڑی اور اہم شاہراہ پر ایک بہت بڑا کام کیا۔ اس نے سڑک کے مسافروں کی زندگی آسان کر دی۔ اس نے راہ چلنے والوں کی فلاح کے لئے کیسے کیسے جتن کئے۔ اتنے طویل راستے پر پہلے کوس مینار تعمیر کئے جن پر راہ کے محافظ متعین ہوتے تھے جو رات کے وقت ان بے شمار میناروں کی چوٹی پر روشنی کرتے تھے تاکہ رات کے مسافر راہ نہ بھٹک جائیں۔ ہر مینار سے اگلا مینار نظر آنا ضروری تھا، یہ احتیاط کس ذہن کی پیداوار رہی ہو گی، عقل حیران ہے۔ ان میں سے کتنے ہی کوس مینار اتنے مضبوط ہیں کہ ابھی تک کھڑے ہیں۔ ابھی اس فہرست کا پہلا ورق کھلا ہے۔ آگے سنئے۔ دریائے سندھ کے ساحل سے خلیج بنگال کے کنارے تک یہ بے پناہ چلی جانے والی سڑک انسان کی فہم و فراست کا مرقع ہے۔ شیر شاہ سے پہلے یہ سڑک اشوک نے اور اس کے بعد کشانوں نے بنائی کیونکہ ہندوستان کا سب سے زیادہ مال اسی راستے جایا کرتا تھا۔ اس زمانے میں سمندر کے راستے سفر کرنے کا رواج بہت کم تھا۔ وسطی ایشیا اور ایران سے لوگ خشکی ہی کے راستے آتے تھے۔ لوگ ہاتھی یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے لیکن بے شمار لوگ پیدل چلتے تھے۔ ان کے لئے ایک بلا کے ذہین بادشاہ نے ناصرف سڑک کو درست کیا بلکہ راستے میں کھانے پینے اور ٹھہرنے کا انتظام کیا اور اس کے لئے کنویں، باؤلیاں، مسجدیں اور سب سے بڑھ کے نہایت آباد سرائیں بنوائیں۔ اس راہ کی بہت سی بستیوں کے نام کے ساتھ لفظ سرائے آج تک لگا ہوا ہے۔یہ سرائے بہت کام آتی تھی۔ ایک تو قیام کے لئے اور دوسرے کاروبار اور لین دین کے لئے۔ اُس وقت کی سرائے میں بڑے بڑے سودے طے ہوتے تھے اور بھاری لین دین ہوتا تھا۔ سرائے سے حکومت وقت کے بڑے کام نکلتے تھے۔ وہاں ٹھہرنے والے مسافر بتاتے تھے کہا ں سے آرہے ہیں اور کس مقصد کے لئے کہاں جارہے ہیں۔ یہ ساری اطلاعیں بادشاہ تک پہنچ جاتی تھیں۔ لوگ راہ کی خانقاہوں اورمسجدوں میں بھی ٹھہرتے تھے اور وہ بھی دور دور کی خبریں لاتے جو بادشاہ کو پہنچا دی جاتی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کبھی بغاوتوں کو کچلنے یا بیرونی حملے روکنے میں بھی ان اطلاعات سے بہت مدد ملتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ نے سترہ سو سرائیں بنائیں۔ ہر ایک کوس کے فاصلے پر ایک سرائے ہوتی تھی۔ کھانے کے وقت ہر مسافر کو کھانا ملتا تھا، بیماروں اور زخمیوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ تمام مسافروں کا اندراج ہوتا تھا۔ دو کاتب ہوتے تھے، ایک ہندی میں لکھتا تھا دوسرا فارسی میں۔
شیر شاہ نے سڑک کی دونوں جانب زمینیں اپنے لوگوں کو دے دیں۔ ان لوگوں کا کام یہ تھا کہ ان زمینوں سے پیسہ کمائیں اور اپنے اپنے علاقے میں سڑک کی دیکھ بھال کریں، اس کے کنارے درست رکھیں۔ اس پر بھوسا یا پرال بچھائیں اور کبھی کوئی خاص سواری گزرنے والی ہو تو سڑک پر پانی کا چھڑکاؤ بھی کریں۔ اس اہتمام کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں سے دھول اڑانے والی سڑک آباد ہو گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جرائم کا جڑ سے خاتمہ ہو گیا۔ شیر شاہ کے عہد میں یہ بات مشہور تھی کہ عورتیں سونا چاندی اچھالتی چلی جاتی تھیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔
اب آج کی بات۔ ہر طرف موٹرویز بن رہی ہیں اور عظیم شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر سڑک چھ چھ لین کی ہوگی۔ اور یہ بات کہتے وقت ہر بار دس انگلیاں دکھائی جاتی ہیں۔ کوئی ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والا دیکھے تو بتا سکتا ہے کہ اس بات میں کتنا سچ ہے اور کتنا سچ نہیں۔ ( لفظ ’جھوٹ‘ کا بہتان میری لغت میں نہیں)۔

.
تازہ ترین