• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میٹرو بس کا افتتاح ہونے سے دو دن پہلے ملتان پہنچا تو سوچ رہا تھا اس شہر ناپرساں نے بھی عجب تقدیر پائی ہے کہ اس کے فرزندوں کے ہاتھ شاہی ہے مگر پھر بھی اول تا آخر رسوائی ہے۔ مخدوم سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر رہے اور اب رفیق رجوانہ اس عہدے پر متمکن ہیں۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم۔ قریشی اور گیلانی چاہتے تو اپنے آبائی شہر کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے مگر وہ جو بیچتے تھے درد دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ انہی خیالات کے ہجوم کو ساتھ لئے اپنے وسیب میں داخل ہوا تو سب سے پہلی راحت گھنٹہ گھر کے قریب بنائے گئے شہباز شریف اسپتال کو دیکھ کر ہوئی۔ سہولتوں، علاج اور صفائی کے اعتبار سے مثالی صورتحال دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلی کہ خدا کرے یہ چمن یونہی رہے اور چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیرا نہ ہو۔ اس دوران حکام سے بھی ملاقاتیں رہیں مگر کوشش یہ تھی کہ عوام سے مکالمہ ہو اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ میٹرو بس منصوبے سے کس قدر مطمئن یا غیرمطمئن ہیں۔ حسب توقع بیشتر شہریوں نے میٹرو بس منصوبے پر سرد مہری اور لاتعلقی کا اظہار کیا۔ بعض افراد نالاں بھی دکھائی دیئے۔ ملتان کے باسیوں کی تنقید سن کر مجھے برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر یاد آئی، جس نے اپنے 11سالہ دور حکومت میں سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ اس کا وژن تھا ’’روڈز فار پراسپیرٹی‘‘ یعنی سڑکیں خوشحالی کا ذریعہ ہیں۔ اس نے 24ارب ڈالر لاگت سے موٹرویز بنانے اور پہلے سے موجود شاہراہیں کشادہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تو نہ صرف سیاسی مخالفین اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اس کی اپنی پارٹی نے بغاوت کر دی۔ اس وقت برطانویوں کا یہی استدلال تھا کہ ہمیں سڑکیں نہیں، اپنے بچوں کے لئے روٹی چاہئے۔ مارگریٹ تھیچر اپنی دھن کی پکی تھیں اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی قائل نہ تھیں اس لئے مخالفت کے باوجود منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ جب مارگریٹ تھیچر کے جانے کے بعد روڈ انفراسٹرکچر کے ثمرات آنا شروع ہوئے تو لوگوں نے تسلیم کیا کہ یہ خاتون تو برطانیہ کی تقدیر بدل کر چلی گئیں۔ تب ایک موٹروے بنانے پر جھگڑا تھا اور 11سال میں 24ارب ڈالر خرچ کرنے پر اعتراض تھا اور اب ناصرف موٹرویز کا جال بچھ چکا ہے بلکہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پانچ سال میں سڑکوں کی تعمیر و توسیع کے منصوبوں پر 25ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یادش بخیر 15سال پہلے جب ملتان میں کلمہ چوک سے ضلع کچہری تک پہلا فلائی اوور بنانے کا اعلان ہوا تو لوگوں نے سخت مزاحمت کی۔ فلائی اوور سے ملحق گرلز کالج میں بے پردگی کا جواز پیش کیا گیا، تاریخی ورثہ متاثر ہونے کا عذر سامنے آیا، قرب و جوار میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا لیکن جب فلائی اوور بن گیا تو ہر شخص کی یہی کوشش اور خواہش ہوتی تھی کہ وہ نیچے سے جانے کے بجائے اوپر سے جائے تاکہ کچھ دیر کے لئے تو یہ احساس ہو کہ ملتان بھی کسی بڑے شہر سے کم نہیں۔ اب تو ملتان میں فلائی اوورز کا جال بچھ گیا ہے اور کئی سال بعد شہر آنے والوں کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کدھر جانا ہے۔ یہ رجحان محض ملتان تک محدود نہیں، ہر علاقے اور ہر شہر کے لوگوں کا یہی مزاج ہوتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب کوئی منصوبہ زیر تعمیر ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے عوام کوشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے، بعض لوگوں کی زمینیں اس کی نذر ہو جاتی ہیں تو کچھ افراد کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ پھر میڈیا اور سیاسی مخالفین کی منفی تنقید بھی رائے عامہ پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن جب منصوبہ مکمل ہوتا ہے اور اس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوتے ہیں تو غصے سے لال پیلے ہوتے لوگوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھتے ہیں۔ جب نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور موٹرویز بنانے کا فیصلہ کیا تو تب بھی مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ اعتراض بھی کیا گیا تھا کہ جس ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، وہاں اس قدر خطیر رقم ایک سڑک پر خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اس دوران نواز شریف کو جانا پڑا، انتخابات ہوئے اور بینظیر برسر اقتدار آئیں تو انہوں نے اس منصوبے کو لپیٹنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر انہیں بتایا گیا کہ اس منصوبے کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ تب انہوں نے موٹرویز بنانے والی کمپنی سے کہا کہ اس کی چھ لین کو کم کر کے چار کردیں۔ کمپنی نے کہا جی بسم اللہ، ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ کو پیسے چھ لین کے ہی دینے پڑیں گے۔ تب جا کر کمپنی کو کام جاری رکھنے کی اجازت ملی اور پھر نوازشریف نے ہی واپس آکر اس کا افتتاح کیا۔ آج حکومت پاکستان اس موٹرویز سے اس کی لاگت کے مقابلے میں ناصرف کئی گنا زیادہ رقم ٹول کی صورت میں حاصل کر چکی ہے بلکہ اسے ایک اہم دفاعی اثاثے کی حیثیت حاصل ہے۔ جب لاہور میں میٹرو بس منصوبے پر کام ہو رہا تھا تب یہاں کے لوگوں کے جذبات و احساسات بھی ملتانیوں جیسے ہی تھے لیکن جیسے ہی بس چلی، لوگوں کی رائے یکسر بدل گئی۔ صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک یہ بسیں کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ اب اورنج لائن ٹرین کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے تو ان علاقوں کے مکین دن رات زحمت کے باعث شدید خفا ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جب میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین چلے گی تو انہیں سابقہ تکالیف اور پریشانیاں بھول جائیں گی۔ میرا خیال ہے ملتانیوں کی رائے بھی بہت جلد بدل جائے گی اور ان کے لئے یہ احساس بھی طمانیت بخش ہو گا کہ ترقی و خوشحالی کے ثمرات بتدریج جنوبی پنجاب تک پہنچنے لگے ہیں۔ میٹرو بس چل پڑی، بہت جلد پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے تحت شہر بھر کی مانیٹرنگ کے لئے جدید ترین کیمرے نصب ہونگے۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ گزشتہ دور حکومت میں قبلہ یوسف رضا گیلانی نے ملتان کو اپنے ’’سایہ عاطفت‘‘ میں نہ لے رکھا ہوتا تو یہ تعمیر و ترقی پہلے بھی ممکن تھی۔ بہر ال دیر آید درست آید، ملتانیوں کو میٹرو بس مبارک۔

.
تازہ ترین