• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجید امجد کی طرح وہ بھی لوگوں کے درمیان کم ہی بیٹھتا ہے گفتگو بھی کم ہی کرتاہے۔ شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کا مرید ہے۔ تین کتابیں شاعری کی شائع ہو چکی ہیں۔ سوائے چند لوگوں کے اس کا نام معلوم ہی نہیں۔ وہ مجلس میں بیٹھا ہو تو بالکل زاہد ڈار کی طرح خاموش کبھی کبھی مسکراتا ہے۔ بینک میں بڑا افسر ہونے کے باوجود کسی پر رُعب نہیں ڈالتا ہے۔ ہمیشہ نظم لکھتا ہے وہ بھی مکمل نظم، اپنی زمین سے جڑے استعارے، تلمیحات اس کی شاعری میں یوں در آتے ہیں، جیسے چوگا دیکھ کر پرندے آن بیٹھتے ہیں۔ پڑھتے ہوئے آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ جب وہ کہتا ہے ’’سخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے‘‘۔ پھر کہتا ہے’’بدن کے مضافات کو بے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا ہے‘‘۔ عجب لائن ہے جب وہ کہتا ہے ’’کئی سال سے اب خراساں کے دستکاروں کی شوریٰ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ یا پھر سرمئی خاک کو بھربھرا چھوڑ دے‘‘۔
آئیے آپ سے تعارف کرائوں: یہ شاعر فرخ یار ہے۔ یہ شاعر اپنے گائوں سے پیار کرتا اورجب موقع ملے اپنے دیہی حجرے میں جاکر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو زمین سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ موسیقی اس کی روح کی غذا ہے۔ خود کو بہلانے کو کبھی شاہ حسین اور کبھی مجید امجد کو ایسے سر میں گاتا ہے کہ اس کے اِردگرد بیٹھے لوگ، گھر میں پالی ہوئی بلی کی طرح آنکھیں اٹھا کر، اُسے بقول فراز آنکھ بھرکے دیکھتے ہیں۔‘‘ گلی ماں، زندگی کی سوتر کی نلکی ہے مگر کھلنے سے قاصر ہے اقتدار جاوید سے لیکر حارث خلیق تک اس کی نظموں کی نیت کے قائل ہیں۔ اس کا یہ کہنا ’’کل تک دنیا کیا تھی، ایک طلسم تھا۔ سرگوشی، کچی سردی کا ہلکورا جس میں ہم دونوں نے آنکھیں میچ کے دیکھا‘‘۔ کیا خوبصورت مصرع ہے۔ خوابوں کی خندق کو اُمید کے پانی سے بھرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کو دیکھتے ہوئے وہ زیر لب کہتا ہے ’’بے توقیری کے موسم میں کھلنے والا چاندی کا دروازہ ہے‘‘۔ فرخ یار آپ کو کہیں اونچی آواز میں نہ ڈراتا ہے نہ دھمکاتا ہے۔ ’’نااُمیدی اور اُمید میں ایک تعلق، جڑی ہوئی دیواروں جیسا‘‘۔ لکھ کر سمجھاتا ہے وعدوں کی مٹھی سے نکلے، خواب اور جگنو، سینت کے رکھے، حرف کو حرف سے سینا تھا، اپنی کرنی بھرتی تھی، اپنا حصہ جینا تھا۔
اتنی شدید سردی میں مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے مجھے فرخ یار کی نظموں نے، لکپاس پہ برف میں جمی ہوئی گاڑیاں یاد کرا دیں۔ چند سال پہلے، خضدار میں ورکشاپ کر کے بارش میں کوئٹہ کی جانب لوٹنے لگی۔ بالکل مطمئن تھی کہ چلو اگلے چار گھنٹے میں منزلِ مقصود پر پہنچ جائوں گی کہ ابھی کوئی دس کلو میٹر آگے گئے تو زمین تو برف سے ڈھکی تھی گاڑی بھی برف میں چھپی جا رہی تھی۔ چونکہ کوئٹہ پر جہاز سے اُترتے ہوئے بھی کوٹ پر برف کے ذرے بہت خوشنما لگ رہے تھے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ واپسی پر کیا ہوگا۔ ہمارا ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے، اسٹیرنگ بار بار اِدھر سے اُدھر کر رہا تھا میں نے بے چین ہو کر پوچھا ’’یہ تم کیا کر رہے ہو، گاڑی سیدھی کیوں نہیں چلا رہے‘‘۔ ڈرائیور نے کہا ’’اتنی تیز برف باری ہے۔ کہیں بھی ٹائر سیدھے چلائیں تو وہیں جم جائیں گے‘‘۔ ہمارے پیچھے ثناء بلوچ کی گاڑی تھی۔ ان کا ڈرائیور بھی کبھی کچے میں جہاں برف کم تھی اور کبھی سڑک پر گاڑی چلا رہا تھا۔ 3گھنٹے کا سفر اتنی کوشش کے بعد 6گھنٹے میں ہمیں لکپاس کے پاس لے کر آیا۔ میں نے لکپاس پر اتنی ساری بسیں اور گاڑیاں رُکی ہوئی دیکھیں اور ہوا تھی کہ لگتا تھا گاڑیوں کو اُڑا لے جائے گی۔ حمید شاہد کے علاوہ جن لوگوں نے لکپاس نہیں دیکھا۔ انہیں بتا دوں کہ یہ ایک پہاڑی ڈھلوان ہے جو کوئٹہ کو دوسرے شہروں سے ملاتی ہے۔ قیامت کی ہوا اور قیامت کی برفباری، میں نے ڈر کر ڈرائیور سے کہا ’’تم بھی گاڑی روک لو‘‘ میڈم کھانے پر آ پ کا انتظار ہو رہا ہو گا۔ مجھے اجازت دیں کہ میں گاڑی چلانے کی کوشش کروں۔ مت پوچھیں یہ چند کلو میٹر کا فاصلہ دو گھنٹوں میں کیسے طے ہوا۔ شہر کوئٹہ میں بھی برف باری اور تیز ہوا سے واسطہ پڑا۔ خدا خدا کر کے پونے بارہ بجے مہمانوں کے درمیان پہنچی۔ یہ رات تھی 31دسمبر کی۔ بس پھر کیا تھا، سب تھکان بھول کر کھانا کھایا گیا سب دوست مایوس تھے کہ میرا پہنچنا سب کو ناممکن نظر آ رہا تھا آیتیں سارے راستے پڑھی تھیں۔ اب شعر پڑھنے کا تقاضا تھا۔ مجھے زندگی اور موت کا مکالمہ یاد تھا۔ ویسے بھی مجھے شعر یاد نہیں رہتے۔ اب پھر اس وقت اسلام آباد میں فال نکالنے کا سوچ کر فرخ یار کی کتاب کھولی تو سامنے تھا۔ ہوا میں تازہ خربوزے کی خوشبو ہے۔ آج کل خربوزے کا نہیں مالٹوں کا موسم ہے۔ مصرع پڑھتے ہی میرے منہ میں پانی آگیا اچھا شعر یا مصرع آپ کو سرشار کرتا ہے۔ میں سخت سردی کو بھگانے کیلئے پھر مونگ پھلیاں ٹوکری میں رکھ کر کھانے لگتی ہوں۔ ہر چند عباس تابش کی کتاب شجر تسبیح کرتے ہیں۔ مجھے بلا رہی تھی مگر میں نے جوابا ’’تمہیں چند سطروں میں نمٹایا نہیں جا سکتا‘‘ کتاب کو کہا آئو میرے پاس بیٹھی رہو۔

.
تازہ ترین