• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاراچنار کی سبزی منڈی میں دہشت گردی کے ہولناک واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ مہینوں میں قبائلی علاقوں میں امن وامان کی مجموعی صورتحال خاصی بہتر رہی ہے۔ فوج، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی کاوشوں سے کراچی، بلوچستان سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ پارا چنار پاکستان کا شمالی مغربی علاقہ ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ چاروں طرف سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا علاقہ ہے۔ ماضی میں بھی یہاں فرقہ واریت کی آگ پھیلانے کے لئے ملک دشمن بیرونی قوتوں نے بم دھماکے کرائے تھے مگر انہیں ابھی تک اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی نہیں مل سکی۔ اب اس حالیہ دھماکے میں بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس افسوسناک واقعہ کو شیعہ سنی لڑائی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار دہشت گردی کے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادت نے بھی اس روح فرسا واقعہ کی بھر پورمذمت کی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کنٹرول بم دھماکے کے ذریعے کی گئی اس بزدلانہ واردات کے نتیجے میں پچیس قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان پچیس بے گناہ افراد میں ایک ایسا 8سالہ معصوم اور پھول صفت بچہ بھی شامل تھا جو رزق کی تلاش میں سبزی منڈی گیا اور لقمہ اجل بن گیا۔ اسی واقعہ کے تناظر میں چند روز قبل ایران کے سرکاری اردو ٹی وی سحر میں دہشت گردی کے موضوع پر ٹاک شو میں مجھے پاکستان سے براہ راست شرکت کا موقع ملا۔ میں نے سانحہ پارا چنار کے حوالے سے عرض کیا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کی جانب سے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات سے پورے ملک میں دہشت گردی کی لہر میں واضح کمی آئی ہے۔ اب محض اِکا دُکا واقعات ہو رہے ہیں۔ ان شاء اللہ بہت جلد وطن عزیز سے دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ ہمیشہ کے لئےختم ہو جائے گا۔ میں نے مزید عرض کیا کہ بم دھماکوں کے حالیہ واقعات کے پیچھے امریکہ اور بھارت کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے کیونکہ دونوں ممالک سی پیک کے منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ روس، ایران، امان اور جرمنی کی جانب سے پاک چین اکنامک کاریڈور کاحصہ بننے کی خواہش کے اظہار کے بعد تو امریکہ اور بھارت دونوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ افغانستان بھی اگر واقعی سی پیک منصوبے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہتاہے تو اُسے امریکی جال سے نکلنا ہوگا۔
اب آتے ہیں آج کے کالم کے دوسرے اہم موضوع میری کتاب’’گردش ایام‘‘کی اشاعت کی طرف! الحمدللہ میری یہ کتاب منظر عام پر آچکی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان سمیت دنیا بھرسے قارئین کرام اور احباب نے مجھے فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا پر زبردست پذیرائی بخشی۔ میں اپنے اُن تمام احباب اور قارئین کرام کا دلی طور پر ممنون ہوں۔ اس حوالے سے میں خصوصی طور پر جناب ملک مقبول احمد اور جناب عبدالستار عاصم کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں تکنیکی تعاون اور لمحہ بہ لمحہ مکمل معاونت فراہم کی۔ میں چونکہ کالم نگاروں کی عالمی تنظیم ورلڈ کالمسٹ کلب کا مرکزی سیکرٹری جنرل ہوں اور اس لئے مجھے لندن سے جناب اشتیاق احمد گھمن، اسپین سے حافظ عبدالرزاق صادق اور آسٹریلیا سے جناب ارشد نسیم بٹ کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے کہ جنہوں نے نہ صرف ’’گردش ایام‘‘ کے لئے تحریری طور پر اپنے پیغامات بھجوائے بلکہ اپنی نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔ میں اس ضمن میں معروف ادیبہ اور ناول نگار محترمہ بانو قدسیہ کا بھی انتہائی ممنون ہوں کہ انہوں نے میری کتاب کے لئے اپنا اہم پیغام بھجوایا۔ ’’گردش ایام‘‘ کتاب کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ میں عزیزی محمد فاروق چوہان کے کالموں کا اکثر مطالعہ کرتی ہوں۔ ان کے کالم کم اور افسانے سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب حالات حاضرہ سے باخبر رہنے والوں اور اردو ادب سے پیار کرنے والوں کے لئے بے حد مفید ثابت ہو گی۔ اسی طرح ممتاز کالم نگار عطاالرحمٰن میری کتاب کے متعلق کہتے ہیں کہ محمد فاروق چوہان کا قلب وذہن اسلامی تحریکی جذبات سے معمور ہے۔ وہ قومی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور پڑھنے لکھنے والوں اورخاص طور پر نئی نسل کے اندر اعلیٰ شعور بیدار کرنے کے ساتھ ملی جذبات بھی گرم رکھتے ہیں۔ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین حافظ شفیق الرحمان بھی ’’گردش ایام‘‘ کے متعلق اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ فاروق چوہان وطن عزیز کے ایک نامور، سنجیدہ فکر اور منجھے ہوئے کالم نگار ہیں۔ فاروق چوہان کے مخصوص اسلوب کالم نگاری کا سحر ہے کہ ان کی تحریریں ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی ہر تحریر اسلامیت اور پاکستانیت کا خوبصورت اور دلکش امتزاج ہوتی ہے۔ مفتی محمد وحید قادری ’’گردش ایام‘‘ کو ایک قومی آئینہ قراردیتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ فاروق چوہان کے کالم کا وژن انسان کی روح میں بس جاتا ہے اور ان کے کالم ہر حوالے سے روشنی کا مینار ثابت ہورہے ہیں۔ نامور کالم نگار اور دانشور جبار مرزا اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ کتاب ’’گردش ایام‘‘ میرے لئے فردوسِ نظر بنتی جا رہی ہے۔ ان کے کالموں کی زبان انتہائی سادہ اور عام فہم ہے۔ یقیناًیہ تاثیر انہوں نے مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے کشید کی ہو گی۔ ان کے کالموں کے عنوانات میں پاکستانیت کی جھلک نمایاں ہیں۔ اسی طرح نامور دانشور علامہ عبدالستار عاصم اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ فاروق چوہان کی کتاب ’’گردش ایام‘‘ اگرچہ کالموں اور تجزیوں کا مجموعہ ہے لیکن حقیقت میں وہ طالب علم جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب اُن کے لئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ صدر ورلڈ کالمسٹ کلب یو کے اشتیاق گھمن اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ محمد فاروق چوہان میرے فکر ی رہنما ہیں۔ ان کے کالم اپنے اندر معلومات کا ایک وسیع خزانہ لئے ہوئے ہیں۔ ایک منفرد اسلوب تحریر اور مضبوط استدلال رکھنے کی وجہ سے قارئین کا ایک بڑا حلقہ انہیں بہت پسند کرتا ہے۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر جناب فاروق چوہان کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ان شاء اللہ یہ کتاب پاکستان اور دنیا بھر میں علم و دوست حلقوں میں اپنا اعلیٰ مقام پائے گی۔ پاک آسٹریلیا فرینڈ شپ کے صدر ارشد نسیم بٹ میری کتاب کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’گردش ایام‘‘کے عنوان سے فاروق چوہان کے کالم پاکستان سمیت دنیا بھر میں اردو دوست حلقوں میں پڑھے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے چشم کشا تجزیے پاکستانی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ قصہ مختصر! اسی طرح سابق امیدوار کتلان پارلیمنٹ اسپین حافظ عبدالرزاق صادق کا بھی اپنے خصوصی پیغام میں کہنا ہے کہ محمد فاروق چوہان معروف کالم نگار، قابل فخر دوست اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی طلبہ سیاست سے شروع ہو کر کالم نگاری کا سفر دیانتداری سے کیا ہے۔ وہ ایک انسان، پاکستان، اسلام اور اردو دوست شخصیت ہیں۔

.
تازہ ترین