• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بتایا جاتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کے تحت تین بڑی چوریاں دولت کمانے کی خواہش میں کامیابی بنتی ہیں۔ ان میں سے ایک چوری حکومت کے محصولات کی چوری ، دوسری چوری ’’واپڈا‘‘ کی فراہم ہونے والی بجلی کے میٹر کو ’’ریورس‘‘ کرانے کی چوری اور تیسری چوری بینکوں کے قرضوں کی چوری ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بینکوں کے قرضوں کی چوری سب سے بڑی چوری ہے اور شائد اس چوری کے ذریعے عالمی سطح پر ہم کوئی خاص ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ان تینوں چوریوں کے پیچھے ہمارے لوگ یعنی سرمایہ داروں کے سیاسی تعلقات بھی کام کر رہے ہوںگے اور شاعر میر تقی میر نے ان سرمایہ داروں کے بارے میں اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ:شریف زادوں سے دلی کے مت ملا کر میرؔکہ ہم غریب ہوئے ہیں ان ہی کی دولت سےان شریف زادوں کے مقابلے میں محنت کش یا جفاکش طبقے کے لوگ روزی کمانے اور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے اپنی زندگیاں قربان کرنے کے خطرے بھی مول لے رہے ہوتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ شریف زادوں کے محلات اور گھروں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے’’پتھرکوارڈ‘‘ کی گرد اور دھول میں زہر کی ہلاکت آفریتی ہوتی ہے ان کوارڈپتھروں کی گرد یا دھول کے مہلک ہونے کا اکثر محنت کشوں اور جفا کشوں کو علم نہیں ہوتا، اس پتھر کی ریت محنت کشوں کے سانس میں چلی جائے تو ان کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی ۔ اس زہر سے بچنے کے لئے محنت کشوں کے نقاب یا ماسک کے استعمال سے موت شائد فوری طور پر واقع نہیں ہوسکتی۔ ہمارے دوست زاہد مسعود نے اپنی ایک نظم میں اس پتھر کو پیس کر سیمنٹ بنانے والے محنت کشوں کی خود کشی کا ذکر کیا ہے۔ نظم کا عنوان ’’سٹون گرائنڈر‘‘ اور نظم!خطرناک پتھر کو پیسنااس کے لئے ضروری ہے کہا سے ایک بوری کے دس روپے ملتے ہیںوہ نہیں جانتاکہاس بوری کی گرد اس کی سانسوں کے وقفے کوکتنا بڑھا دے گیوہ ماسک نہیں خرید سکتا کہاسے ماسک سے پہلے شعور خریدنا ہےجو کسی دکان پہ دستیاب نہیںکھانسی روکنے کے لئے اسےگڑ فراہم کر دیا جاتا ہےتاکہ اس کی قوت کار بحال رہےچھ ماہ بعداس کی جگہ اس کا بڑا بیٹا لے گاجسے وہ نوکری کے پہلے د ن آخری بار اسے دیکھے گااس کے بیٹےکی جگہ کون لے گایہ تو شائداس کا بیٹا بھی نہ دیکھ پائے گا۔

.
تازہ ترین