• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھیگے ہوئے موسم کامزہ کیوں نہیں لیتے؟یہ کرارے تھپڑ، گرما گرم بھاپ چھوڑتے مکے، یہ تیز تیکھے ٹھڈے، چٹ پٹی گالیاں، فحش اشارے، خستہ دھکے، ابلتے ہوئے الزامات، لذیذ لاتیں، پھٹے ہوئے گریبان۔ 1995 کے بعد جمہوریت کاایسا حسن بلکہ توبہ شکن جوانی کہیں دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ سچ تو یہ کہ دیکھ تو میں اب بھی نہیں سکا۔ جمعۃ المبارک کی صبح نیم نیند کے عالم میں اخبارات کے پلندے پر ہاتھ رکھا توکرنٹ سا لگا اور پھرلگتا ہی چلاگیا۔ کاش میں یہ سب کچھ ٹی وی سکرینوں پر لائیو دیکھ سکتا۔ خوا مخواہ ہمارے بے ضرر، معصوم، سیدھے سادے بھولے بھالے ٹی وی اینکرز کو سکینڈلائز اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے الزام لگائے جاتے ہیں کہ یہ ’’مرغے‘‘ لڑاتے ہیں، بھس میں چنگاریاں پھینکتے ہیں، جلتی پرتیل ڈالتے ہیں، شعلوں کو ہوا دیتے ہیں، کبھی پھپھے کٹنی اور کبھی بی جمالو کارول پلے کرتے ہیں تو اب کوئی پوچھے قومی اسمبلی کے اس ایکشن سے بھرپور شہکار کا ہدایتکار کون تھا؟’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘یا پھر’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘کون سا ایسا تان سین تھا جس کے دیپک راگ چھیڑتے ہی راج محل میں آگ لگ گئی ۔ جمہوریت کا یہ حسن دیکھتے پڑھتے وقت نجانے کیوں مجھے قیام پاکستان سے پہلے کے تین قدآور لوگوں کی تقریریں ٹوٹ ٹوٹ کر یادآرہی ہیں۔ ایک تھے برطانیہ کے سر ونسٹن چرچل، دوسرے اپنے علامہ عنایت اللہ المشرقی اور تیسرے مولانا ابوالکلام آزاد جن کی تقریروں کامقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ’’آزادی‘‘ پا لینے کے بعد مادر پدر آزاد لوگ کس کس انداز میں ’’آزادیاں‘‘ منایاکریں گے یعنی سرے محل اور پارک لین سے پاناما تک آزادیوں کی کیسی کیسی داستانیں لکھی جایاکریں گی۔ سو وہ لکھی جارہی ہیں، پڑھتا جاشرماتا جا ہرگز نہیں بلکہ پڑھاتا جا اتراتا جا کہ اسے کہتے ہیں جمہوریت، آزادی اور ان کا احترام۔ایک انگریزی اخبار نے خوب سرخی جمائی ہے۔"Panama battle takes ugly turn"’’پاناما کی جنگ بدصورت موڑ مڑ گئی‘‘اصل مسئلہ یہ کہ پاناما کی تو جنگ ہی بدصورت تھی سو بدصورتی اگر بدصورت موڑمڑ گئی تو اس میں حیرت کیسی؟ اور پاناما میں اس کے انکشاف سے لے کر آج تک بدصورت موڑوںاور بدصورتیوں کے علاوہ اورہے ہی کیا؟ اور بدصورتی اگرمزید بدصورتی کو جنم نہ دے گی تو کیا حسن و جمال کے شہکار پیداکرے گی؟ ہم جیسوں کی تو دعا ہے کہ پاناما کم سے کم قیمت وصولنےکے بعد ٹل جائے توسمجھیں گے سستے چھوٹ گئےورنہ یہ سکینڈل کوئی ایسی قیمت بھی وصول کرسکتا ہے جو شاید ہماری اجتماعی جیب میں موجود ہی نہ ہو۔ پاناما علامت ہے ظلم، استحصال، خیانت اور بدترین عدم مساوات کی جس نے اس ملک کی معاشیات اور معاشی رشتوں کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ میںشاید پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ معاشرہ دراصل ’’معاش‘‘کی گود سے ہی جنم لیتاہے۔ معاشی وسائل کی تقسیم جتنی انسانی، احسن، عادلانہ اور منصفانہ ہوگی، معاشرہ اتناہی متوازن اور خوبصورت ہوگا بصورت دیگر اتنا ہی مکروہ اور بدبودار ہوتا چلاجائے گا جتنا یہ ہوتا چلا جارہا ہے بلکہ ہوچکا ہے کہ بھوک اور بدہضمی دونوں ہی اپنی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہیں اور قدم قدم پر ساحر لدھیانوی یہ کہتاسنائی دیتاہے؎اس طرف بھی آدمی ہے اس طرف بھی آدمیاس کے جوتوں پر چمک ہے اس کے چہرے پر نہیںیہاں اس بات کی وضاحت بے حد ضروری ہوگی کہ مساوات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب انسان ’’برابر‘‘ہیں بھلا مجھ جیسا ایک عادی گنہگار کسی ولی اللہ پرہیزگار کے برابر کیسے ہوسکتاہے؟ کوئی نالائق کسی نیوٹن کاہم پلہ کیسے قراردیاجاسکتا ہے؟ سپہ سالار کسی عام سپاہی کے مساوی کیسے ممکن ہے؟ غالب اور چرکیں ایک جیسے کیسے ہوگئے۔ علیٰ ہذا القیاسیہ مساوات کی بہت ہی سطحی تعریف ہے ہاں البتہ انسان وہاں سو فیصد برابر ہیں جہاں ان کی بنیادی ضروریات کا سوال پیدا ہوتا ہے مثلاً بھوک، نالائق اور نیوٹن کو بھی ایک ہی جیسی لگتی ہے۔ موسموں کی شدتوں اور بے رحمیوں کے اثرات غالب پر بھی ویسے ہی ہوں گے جیسے چرکیں پر، آگ مجھے بھی ویسے ہی جلائے گی جیسے کسی پرہیزگار کو۔ ایٹمی جنگ ہوگی تو مساوات بھی مثالی دکھائی دے گی۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنا ہوتا ہے جہاں کوئی شخص بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے کہ وزیراعظم کے بچے کے ساتھ ساتھ بھٹہ مزدور کا بچہ بھی سکول جانے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ سکول ذرا کم تر درجہ کا ہی کیوں نہ ہو۔اور سرے محلوں، پارک لینوں اور پانامائوں کی موجودگی میں ایسا معاشرہ بننا ممکن ہی نہیں رہ جاتا اور ہمیں لکھنا پڑتا ہے..... ’’پاناما کی جنگ بدصورت موڑ مڑ گئی‘‘

.
تازہ ترین