• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف کے حامی اور اُن کی شہرت کاچرچا کرنے والے درست کہتے ہیں کہ اُنہیں ’سرحدی علاقے‘‘ میں 90 ایکڑ زمین الاٹ ہونے کے معاملے کو جان بوجھ کر اچھالا جارہا ہے ۔مثال کے طور پر ہم نہیں جانتے کہ جنرل کیانی کو کہاں اور کتنی زمین الاٹ کی گئی ۔ لیکن پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ جنرل کیانی دور کا تعلقات عامہ اُنہیں قوم کے مسیحا کے طور پر پیش نہیں کررہا تھا۔’’تھینک یو راحیل شریف‘‘ نامی مہم یاد ہوگی؟ ان کی پبلک ریلیشن مشینری کی فعالیت میں کسے شبہ ہوسکتا ہے ۔ تاثر تھا کہ اُن کے امیج کو جان بوجھ کر اجاگر کیا جارہا ہے ۔ تو کیا اب وہ اس بات کی شکایت کرسکتے ہیں کہ اُنہیں کردار کے بہت اونچے معیار پر جانچا جارہا ہے؟اس سے پہلے ہمیںبتایا گیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف خود کو الاٹ کردہ قیمتی زمین فروخت کرکے رقم شہدا کے فنڈ کو عطیہ کردی ہے ۔ یقینا ہمیں اس بات کا پتہ نہ چلتا اگر اُن کی تعلقات ِعامہ کی مشینری اس اچھے کام کی تشہیر نہ کرتی ۔ تاہم اس تشہیر میں اس تاثر کا اشارہ بھی موجود تھا کہ اعلیٰ افسران کو دی جانے والی قیمتی زمین کی الاٹمنٹ میں کچھ نہ کچھ خرابی تھی،چنانچہ ارفع و اعلیٰ کردار رکھنے والے جنرل شریف نے دیگر افسران کے برعکس اس سے استفادہ کرنا گوار ا نہ کیا۔ اس کی بجائے اُنھوںنے یہ بیش قیمت زمین عوامی مفاد میں دے دی۔تو کیا وہ الاٹمنٹ قانون کے مطابق تھی؟
جنرل راحیل شریف کی ساکھ کو اس خبر نے شدید زک پہنچا ئی کہ وہ ریاض کے لئے سیکورٹی خدمت سرانجام دینے جارہے ہیں۔ بہت سے افراد جنہوں نے اُنہیں درست کام کرتے دیکھاتھا، اور وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی ملازمت مکمل کرکے منظر ِعام سے ہٹ جائیں، کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ یہ ایک عجیب ملک ہے جہاںایک سابق آرمی چیف کو الاٹ کی جانے والی زمین کے بارے میں کی جانے والی بحث سیکورٹی کا معاملہ قرار پائے لیکن ایک سابق آرمی چیف کے ایک غیر ملکی ریاست کے فوجی عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے بنائے گئے فوجی اتحاد کی قیادت سے سیکورٹی کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہو ۔کیا وہ اُس وقت بھی اس ملازمت کے لئے گفت وشنید کررہے تھے جب اُنھوںنے بطور آرمی چیف اپنے ملک کو یمن جنگ میں مداخلت سے روکا تھا؟بہرحال بہترین ساکھ رکھنے والے جنرل راحیل شریف کو قیمتی زمین کی الاٹمنٹ پر بحث نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کی بجائے بحث کا موضوع (1) ایک کثرت ِآبادی والے ملک میں طاقت ور اشرافیہ کے ارکان کو زمین الاٹ کرنا، (2) ہماری ریاست کا وہ طرز ِعمل، جو مخصوص عناصر کو مفاد پہنچاتا اور ان کی سرپرستی کرتا ہے ، اور یہی عناصر اس کی معیشت اور معاشرے میں طاقت کویقینی بنانے والے تعلقات کو کنٹرول کرتے ہیں، (3)اشرافیہ کی لوٹ کھوسٹ ، جو اس کے باوجود عوام کو نقصان پہنچانتے ہوئے اپنا دفاع کرتی ہے ۔
جب انسانی تہذیب کا آغاز ہوا تو زمین کسی کے نام نہیں تھی۔ اس کے بعد زمین پر قبضہ کرنے اور دوسروں کو طاقت کے بل بوتے پر نکال باہر کرنے کی دوڑ شروع ہوئی ۔ اس کے بعد جب ملوکیت کا دور آیا تو ریاست، اس کے اثاثوں اور زمین پر بادشاہ کا تصرف ’’خدائی حق ‘‘قرار پایا۔ ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر وہ خوش ہوکر کسی کو بھی زمین الاٹ کرسکتا تھا۔ اُس دورمیں ہر شاہی فرمان قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ ہر معاملے میں اس کی منشا مقدم تھی۔ اب ہم کہتے ہیں کہ آج کسی فرد کی مرضی کی بجائے قانون کی حکمرانی کا دور ہے ،نیز اب مطلق العنان فرد کی بجائے عوام کی حکومت ہے ۔ اب عوام ہی اپنے مرضی کے نمائندے چنتے ہیں جو اپنی اتھارٹی کو عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ اس ماڈل کے اندرریاست کا نظم و نسق چلانے والے عوام کے مفاد کی بہترین نگرانی کرنے کے لئے ریاستی اختیار اور طاقت کو امانت کے طور پر استعمال کرسکتے ہیںلیکن اس کے وسائل کی من مانی تقسیم کے مجاز نہیں۔
چنانچہ دوسوملین کی آبادی رکھنے والے ایک ملک، جہاں سرکاری زمین انتہائی قیمتی اثاثہ ہے ، ایسا اثاثہ جو محدود بھی ہے اور اس کا نعم البدل بھی کوئی نہیں ، میں سرکاری زمین کو کس طرح کچھ محدود افراد کی نجی ملکیت میں دیا جاسکتا ہے ؟ ریاست کو کنٹرول کرنے والی اشرافیہ نے اس ’’دن دیہاڑے ڈکیتی‘‘ کو جائز قرار دینے کے لئے قوانین وضع کررکھے ہیں۔ ’’لینڈ ایکوزیشن ایکٹ‘‘، ’’بارڈر ایریا ریگولیشنز‘‘ اور سویلین اور دفاعی اداروں کے افسران کے علاوہ ججوں ، صحافیوں، وکیلوں اور دیگر پیشہ ور افراد کے لئے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی اسکیمیں اس لوٹ مار کو قانونی جہت عطاکرتی ہیں۔ کیا آئی ایس پی آر نے یہ نہیں کہا کہ افسران کو زمین کی الاٹمنٹ آئین کے مطابق ہے ؟ آئین شہریوں کے مخصوص گروپ میں زرعی زمین کی تقسیم کی کوئی اجازت نہیں دیتا۔ تو کیا ایسی زمین ’’ویسٹ پاکستان بارڈر ایریا ریگولیشن(دی مارشل لا ایڈمنسٹریشن زون ’بی‘ ریگولیشن نمبر 9، 1959) ‘‘ کے مطابق الاٹ کی جاتی ہے ؟ یہ ریگولیشن افسروں، سرکاری اہل کاروں اور مہاجرین کو زمین الاٹ کرنے کے متعلق ہے ۔ ابتدا میں یہ قانون ایک افسر کو پچاس ایکٹر زمین الاٹ کرتا تھا، لیکن بعد میں اس میں ’’یا زمین کی مشروط دستیابی‘‘ کا اضافہ کردیا گیا۔
ایسی زمین الاٹ کرنے کی شرائط یہ ہیں کہ وہ شخص’’جسمانی طور پر صحت مند ہواور اس کی عمر اٹھارہ سے پچپن سال کے درمیان ہو‘‘، ’’اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ الاٹ کردہ زمین پر رہائش اختیار کرے ، خود کھیتی باڑی کرے ، کاشت کے مسلسل دو سیزن تک زمین بے کار نہ رہے ، اور اگر اُس گائوں کی آبادی میں گھر حاصل نہ کرسکے تو وہ الاٹ کردہ زمین میں ایک سال کے اندر اندر مکان تعمیر کرے ‘‘۔ اگر آئی ایس پی آر مناسب سمجھے تو جنرل صاحب کے گائوں میں گھر اور کھیتی باڑی میں مصروف محترم کی تصاویر تو ٹوئٹ کردے۔ کیا یہ استفسار دفاعی ادارے کی توہین کےمترادف ہوگا کہ اب تک تقسیم کی گئی کل زمین ، مارکیٹ ریٹ پراس کے فروخت کردہ حصوں، اور افسران کی خود کاشت کردہ زمین کی تفصیل سے عوام کو بھی آگاہ کردیا جائے ؟اگر ریٹائر ہونے پر زمین کی الاٹ منٹ دفاعی ادارے کے افسران کا مالی استحقاق ہے تو پھر اسے بارڈر کنٹرول ایشو کی آڑ میں کیوں حاصل کیا جاتا ہے ؟اور پھر صرف وردی پوشوں کو ہی کیوں؟ کیا پروفیسرز ملک کی قابل ِ قدر خدمت نہیں سرانجام دیتے ؟اگر مالی تعاون ہی اصل مقصد ہے تو پھر دیگر تنخواہ دار طبقوں کو یہ سہولت کیوں حاصل نہیں؟
سب سے اہم بات یہ کہ زمین ہی کیوں؟ زمین عوام کا اثاثہ ہے ۔ ریاست مالی تعاون تنخواہوں، پنشن، بونس اور دیگر پیکیج کی صورت کرسکتی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کو پتہ تو چلے کہ فلاںمحکمے کے افسران کی اُنہیں کتنی قیمت اداکرنی پڑتی ہے ۔ ریاست اعلیٰ افسران پر مشتمل اشرافیہ میں پلاٹ کیوں تقسیم کرتی ہے ؟دووقت کی روٹی کے لئے جدوجہد کرنے والے عوام کے ملک میں یہ دریا دلی ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟ سرکاری زمین کو نجی ملکیت میں دینے سے بھی بدتر بات نجی زمین کو بحق ِ سرکار ضبط کرنا اور پھر اسے مخصوص افراد کی نجی ملکیت میں دے دینا ہے ۔ یقینا آئین ریاست کو ناگزیر صورت میں زمین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ ’’لینڈ ایکوزیشن ایکٹ ‘‘ کہتا ہے کہ عوامی مقصد کے لئے نجی زمین کوریاست کی تحویل میں لیا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس مقصد کے لئے ریاست زمین کے مالک کو ڈی سی ریٹ پر ادائیگی کرتی ہے ۔
یہ نرخ مارکیٹ نرخ کا ایک تہائی ہوتا ہے ۔اس ڈی سی نرخ کے غیر حقیقی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس حکومت نے ٹرانسفر فیس اور وودہولڈنگ ٹیکس کے لئے تو قوانین تبدیل کرکے ایف بی آر کو جائیداد کی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار دے دیا، لیکن عوام سے خود زبردستی زمین حاصل کرنے پر اسی ڈی سی ریٹ کا اطلاق ہوتا ہے ۔
ہم لٹنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیںجس کسی کی زمین فرض کریں سی ڈی اے ، یا ڈی ایچ اے زبردستی حاصل کرکے اپنی اسکیم میں شامل کرتے ہیں، وہ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے ۔ اُس سے چار کنال زمین لے کر ایک کنال کا پلاٹ دے دیتے ہیں۔ باقی تین پلاٹوں کو مارکیٹ کے اونچے ریٹ پر فروخت کردیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر خرید کردہ قیمت سے دس گنازیادہ ہوتی ہے۔ پراپرٹی کے مالک تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس تبدیلی کے عمل میں غریب ، غریب تر اور امیر ، امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہ سب عمل قانونی طور پر جائزہے ۔ چنانچہ تنقید ی سوچ کو شٹ اپ کال دینا ہی بہتر۔

.
تازہ ترین