• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمرانوں کے ترکوں اور قطریوں کے ساتھ دوستانے کی داستانیں زبان زدِعام ہیں۔ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان اور قطری شہزادے کانام شریف خاندان کی تاریخ میں سنہری حروف میںلکھاجائے گا۔ طیب اردوان اورقطری شہزادے نے نون لیگ کی حکومت کے لئے وہی کردار ادا کیا ہے جو بھارتی فلم ’’شعلے ‘‘ میں ( امیتابھ بچن اور دھرمیندر) نے جے اورویرو کی جوڑی کے روپ میں ٹھاکر(سنجیو کمار) کیلئے کیاتھا۔ترکی سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے ہیں لیکن میاں برادران نے اسے جلابخشی ہے ۔عمران خان کا کہناہے کہ میاں برادران نے ترکی سے زیادہ طیب اردوان فیملی سے تعلقات مضبوط کئے ہیںلیکن مصیبت یہ ہے کہ کپتان سے اگر اس الزام کی بابت ثبوت مہیا کرنے کے لئے کہاجائے تووہ فراہم نہیں کرپائیںگے۔عجیب حُسن اتفاق ہے عمران خان ایک طرف تو شریف فیملی کے طیب اردوان کے خاندان سے ذاتی مراسم ثابت نہیں کرپارہے دوسری طرف وزیر اعظم ان کی میڈیاالیون اور مہنگے ترین وکلا کی ٹیم قطری شاہی خاندان سے ان کے ذاتی اور کاروباری مراسم ثابت کرنے کیلئے دوسرا خط منظر عام پرلے آئے ہیں۔یعنی اس باریک نکتے کو سمجھئے کہ ایک طرف تو دوستی اوربھائی چارہ ریاستی ،قومی اور حکومتی تقاضوں کامرہونِ منت ہے اورقطر کے معاملے میں نکتہ پرداز ثابت کررہے ہیںکہ یہ ساری حیثیتیںکاروباری رشتے میں ضم ہوگئی تھیں۔جیوکے مقبول پروگرام ’’خبرناک ‘‘ میں آغا ماجد اور واجدنے بھانڈوں کے روپ میں پھبتی کسی کہ جس طرح شہزادہ جاسم کے خط منظرعام پر آرہے ہیں یوں لگتا ہے خطوطِ جاسم شائع بھی ہوںگے ۔ خطوطِ جاسم سے پہلے خطوط غالب کا شہرہ ہواہے۔ مرزا غالب کے آبائو اجداد کاتعلق بھی ترکی سے تھا ۔غالب سلجوقی ترک تھے مرزا نے خط کے لئے لکھاتھاکہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اورلکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
نامور غزل گائیک غلام علی جنہیں ہم گجرانوالیے ’بھاغلام علی‘( بڑا بھائی ) بھی کہتے ہیںانہوں نے ایسی بہت سے غزلیں گائی ہیں جن میںوہ خط کا ذکر لہک لہک اورجھوم جھوم کر کرتے ہیں
تمہارے خط میں نیااک سلام کس کاتھا
نہ تھا رقیب توآخر وہ نام کس کا تھا
اسی طرح غلام علی نے ایک کھلے خط کی بھی کمپوزیشن کی تھی جسے شاید دانستہ رسوائیوں کے لئے بند نہیں کیاگیاتھا
راز کی باتیں لکھیں اور خط کُھلارہنے دیا
جانے کیوں رسوائیوں کا سلسلہ رہنے دیا
غلام علی کی طرح ملکہ ترنم نورجہاں نے ایسی بہت سی استھائیاں گائی ہیں جن میں خطوں اورچٹھیوںکاذکر ہے۔ فلم دامن اورچنگاری کا یہ گیت ’’دیس پرائے جانے والے وعدہ کرتے جانا،مجھے خط لکھوگے روزانہ‘‘ اس سے قبل فلم دوستی کا یہ گیت’’چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے ،حال میرے دل کا تمام لکھ دے ‘‘۔بھارت میں تو لتا،آشا، محمد رفیع،کشور،پنکھج ادہاس اور جگجیت نے خط پترلکھنے والوں اور دل پر قبضہ کرنے والے شہزادوں کے لئے بہت کچھ گایاہے۔بھارت کاذکر چھیڑا ہے تو وطن عزیز میںبھارتی فلموں کی نمائش پر بھی بات کرلیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ یہ پابندی حکومت کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ایسا سینمامالکان نے خود سے کیاتھا۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کے باعث دونوں ملکوں کا میڈیا ’’حالت ِجنگ‘‘ میں تھا۔ایسے میں انتہا پسند ہندوئوں نے پاکستانی فنکاروں کو بھارت سے نکل جانے کی دھمکی دی اورپھر پاکستان میں سینمامالکان اور نمائش کاروں نے بھی بھارتی فلموں کی نمائش روک دی۔
70ء کی دہائی میں ایک پاکستانی فلم لاہور سے ڈھاکہ تک کے لگ بھگ تین ہزار سینمائوں میں نمائش ہوا کرتی تھی ۔اس وقت 1248سینما مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) جبکہ 1500سے زائد سینما بنگلہ دیش میں تھے۔بنگلہ دیش میں کشتی سینمااور ٹورنگ ٹاکیوں کا بھی رواج تھا۔پاکستانی فلموں کو بھی چونکہ ایک وسیع سرکٹ میسر تھا اسلئے فلم کا بزنس اپنے عروج پر تھا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی فلم ٹریڈ کے زوال کا آغاز تھا۔اندازہ کیجئے لگ بھگ نصف صدی قبل صرف مغربی پاکستان میں 1248سینما تھے اور آج جبکہ پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے بھی زائدہے ہمارے ہاں 70ملٹی پلیکس میں 225اسکرینز ہیں ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹودور میں فلم کی اہمیت کے پیش نظر اس پر توجہ دی گئی لیکن جنرل ضیاالحق کے طویل دور میں یہ تالہ بندی کا شکار رہی۔پاکستان فلم انڈسٹری مشکلات کا شکار ہوئی جبکہ وی سی آر پر بھارتی فلمیں عام ہوئیں۔ضیاالحق ظاہری پارسائی اور ایک نمائشی امیج کے باعث بھارت کے حوالے سے ایک سخت گیر امیج رکھتے تھے مگر ذاتی طور پر انہوں نے بھارتی اداکار شتروگھن سنہا کو منہ بولابیٹا بنارکھاتھاجن کا ان کے ہاں آنا جانا لگارہا۔قومی فلم اور اس سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار حکمران ایلیٹ اور پاکستانی معاشرے کی منافقت کا شکاررہا ہے۔حکمران ایلیٹ اور صاحب ثروت افراد اپنے بچوں کی شادیوں اور چھوٹی موٹی خوشیوں کو منانے کے لئے بالی وڈ سے مہنگے اسٹارز بلواتے ہیں۔لاہور میں ایک صنعت کارکے بیٹے کے عقیقے کی خوشی میں سجائی گئی پارٹی میں بالی وڈ باربی ڈول قطرینہ کیف کا ڈانس میں نے بھی دیکھاہے ۔
گزشتہ رات میرے ایک دوست اینکر پرسن نے بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف ’’جذبہ حب الوطنی ‘‘ سے لبریز پروگرام کھڑکادیا۔مذکورہ ٹی وی پروگرام میں ہیروٹائپ اینکر پرسن نے حکومتی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو ولن پیش کرنے کی بھرپورکوشش کی ۔اینکر کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر کس طرح پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی اُٹھا دی ؟ظاہری طور پر اینکر پرسن کا سوال وطن پرستی کے تمام’’ وٹامنز‘‘ سے بھرپورہے مگر وزیر صاحب یقینا یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ مذکورہ اینکرپرسن کچھ عرصہ قبل خود بھی بھارتی اسٹارز کے انٹرویوز کرنے کے لئے ممبئی میں لنگر انداز رہے۔ سوناکشی سنہا، گلزار اور لتامنگیشکر سے انٹرویوز میرے دوست اینکر پرسن اسلئے کرپائے تھے کہ لاہور سے ٹیلی فونک کوآرڈی نیشن میں کررہا تھا۔ ان دنوں میں بھی اسی ٹی وی چینل میں کام کررہا تھا جس سے میرے دوست اور اسٹار اینکر پرسن وابستہ ہیں۔ عام پاکستانیوں کی تفریح، فلم ٹریڈ اور اس لئےسے وابستہ لاکھوں افراد کے روزگار کاتحفظ بھی حکومت کا فرض ہے اسلئے وزیر اعظم کے اس فیصلے پر تنقید کرنے کی بجائے سراہنا چاہئے۔ اس بابت یہ بھی اہم قدم ہوگا کہ پاکستانی فلموں کو وسیع بھارتی سرکٹ میں رسائی کیلئے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔

.
تازہ ترین